' آپ اگر فیملی کے ساتھ نہیں ہیں، تو ہرگز اس انکلوژر میں داخل نہیں ہو سکتے'
یہ کہتے ہوئے پولیس والے کی آواز اونچی ہوئی اور نوجوانوں نے اسے گھیر کر نعرے بازی شروع کر دی البتہ چند سیکنڈز میں ہی پولیس کے دیگر جوانوں اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رضاکاروں کی آمد کے ساتھ ہی معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
یہ مناظر میں نے تب دیکھے جب جلسہ شروع ہونے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا اور کراچی کے علاقے نمائش چورنگی سے باغِ جناح کی طرف جانے والی سڑک جلسہ گاہ میں داخل ہونے والے شرکا سے بھری ہوئی تھی۔
یوں تو شام میں کراچی کا موسم دل فریب اس لیے ہو جاتا ہے کہ یہاں چلنے والی سمندری ہوائیں ہی گرمی کا توڑ کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن حد نگاہ پھیلے انسانوں کے اس سمندر کو عبور کر کے جلسہ گاہ تک، جہاں مرکزی قائدین کا اسٹیج تھا، پہنچنا ہی ایک دشوار کن مرحلہ تھا۔ گرمی کا احساس تو تھا ہی ساتھ ایسا لگ رہا تھا کہ سانس لینا بھی محال ہے البتہ اس سڑک سے گزرنے کے دوران دلچسپ مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے۔
ایک رکشے پر عمران خان کی پرنٹڈ شرٹس کا اسٹال لگا ہوا تھا جس پر اب تک کے سب سے مقبول نعرے ‘ایبسولوٹلی ناٹ’ کی شرٹس آویزاں تھیں۔
کہیں تحریکِ انصاف کی سرخ اور سبز ٹوپیاں اور بیجز فروخت ہو رہے تھے تو کہیں پارٹی پرچم یونہی جلسے میں آنے والوں کو تھمائے جا رہے تھے۔
اس راستے میں واک تھرو گیٹس لگائے گئے تھے جن سے گزرنے کے بعد پولیس اور رضاکار ایک بار پھر تلاشی لے کر اپنی تسلی کر رہے تھے۔ ساتھ ہی جگہ جگہ رینجرز بھی تعینات تھی۔
ابھی ہم اس رش میں جگہ بنانے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ایک اور شور سنائی دیا۔ ہم سے آگے کچھ فاصلے پر نوجوانوں کا ایک گروپ دائرے کی شکل میں تھا۔ ایسا گمان ہوا کہ شائد کسی کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور اس سے جھگڑا ہو رہا ہے۔
پولیس پھر سے متحرک ہوئی اور دوڑی لیکن اگلے ہی لمحے پولیس کا جوان واپس مڑا اور دوسرے کو پنجابی زبان میں کہنے لگا ‘او یار بس رہن دے ایویں دا شغل لایا ہے’ (او یار رہنے دو بس ایسے ہی شغل لگایا ہوا ہے۔)
ہم جب قریب سے گزرے تو ماجرا جانا۔ معلوم ہوا کہ ایک لڑکا امپورٹڈ حکومت نامنظور کا نعرہ لکھ کر لایا ہے جس کے ساتھ ایک پلاسٹک کا لوٹا تھا۔ نوجوان اس لوٹے کی تھپڑ اور گھونسوں سے تواضح کر رہے تھے۔ یہاں تو اس لوٹے کی خوب مرمت ہوئی۔ تھوڑا آگے جاکر تو میں کراچی والوں کی فنکاری کو داد دیے بنا رہ نہیں پائی۔
ایک صاحب جو جلسہ گاہ میں داخل ہونے والے تھے، وہ مجھے دور سے ایسے نظر آئے کہ ان کے ہاتھ میں ایک بانس تھا۔ جس پر تین لوٹے بندھے ہوئے تھے۔ جو برقی قمقموں سے روشن تھے۔ میں جو گرمی سے بے حال تھی، اس طرح کی تخلیق دیکھ کر سب بھول گئی۔
جلسہ گاہ میں داخل ہوتے وقت میری سماعت سے ایک جملہ ٹکرایا جو کچھ یوں تھا ‘اگر کوئی بھی بد تمیزی کرے تو لحاظ نہیں کرنا الٹے ہاتھ کا تھپڑ لگا دینا، سمجھ آئی۔‘
Your browser doesn’t support HTML5
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خاتون کے ساتھ نوجوان لڑکی ان کا ہاتھ پکڑے، پارٹی پرچم کے رنگ کا لباس پہنے میرے پیچھے پیچھے آرہی تھیں۔
میں نے سلام دعا کے بعد ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ماں بیٹی ہیں اور نارتھ کراچی سے پہلی بار کسی سیاسی جلسے میں شریک ہونے آئی ہیں۔
انہیں عمران خان کو دیکھنا تھا۔ اس لیے وہ آج کا جلسہ مِس نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن پہلی بار انہوں نے اتنا ہجوم سامنے دیکھا اور کچھ نوجوانوں کو بے قابو ہوتے بھی دیکھا۔ تو وہ اپنی بیٹی کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسٹیج کے قریب فیملی انکلوژر تک پہنچ چکی ہیں جب کہ خوشی ان کے چہرے پر واضح تھی۔
اسی انکلوژر میں سیاہ اور سفید میکسی میں ملبوس کوئی 60 سال کی عمر کی ایک خاتون بھی دکھائی دیں۔ ان کا پہناوا اور شخصیت عام لوگوں کی نسبت ذرا مختلف تھا۔ درمیان میں لگے آہنی جنگلے سے میں نے ان کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی ہیں؟
تو انہوں نے بتایا کہ وہ لندن سے اپنے رشتے داروں کے پا س آئی ہوئی ہیں اور خاص طور سے جلسے میں شرکت کرنے آئی ہیں۔
اپنے پرس سے انہوں نے دو صفحات پر مشتمل ایک تقریر نکالی۔ جو وہ عمران خان کے لیے خصوصی طور پر لکھ کر لائی تھیں لیکن اب انہیں مایوسی ہورہی تھی کہ ان کی رسائی ان کے قائد تک شاید نہ ہو پائے۔
سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور لمبے سنہرے بالوں والے حسنین نیازی کا تعلق لیاری سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں عمران خان اس لیے پسند ہیں کہ وہ بھی نیازی ہیں، پہلے وہ ان کا جنون تھے اب وہ ان کی ضد بن چکے ہیں کہ ہر صورت انہیں دوبارہ وزیرِ اعظم بنانا ہے۔ چاہے مہنگائی اور بڑھ جائے، انہیں فرق نہیں پڑتا۔
جلسہ گاہ کو تو کراچی سے تحریکِ انصاف کے حامیوں کی بڑی تعداد نے کھچا کھچ بھر دیا لیکن جو مناظر رات 10 سے 11 بجے کے درمیان دیکھے گئے وہ بھی الگ ہی تھے۔
کوریج کے دوران ہم جلسہ گاہ سے نکل کر باہر پیپلز چورنگی کی جانب رواں دواں تھے۔ اس روڈ پر کوئی اسٹریٹ لائٹ روشن نہیں تھی لیکن شرکا خصوصاً فیملیز کی بڑی تعداد پیدل نہ جانے کہاں کہاں سے اس سڑک سے ہو کر جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں تھی۔
اس وقت تک عمران خان کا خطاب شروع نہیں ہوا تھا۔ کچھ بزرگ جو تھک گئے تھے وہ مزار ِقائد کی فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے۔ یہاں سے گزرنے والے نوجوانوں کے گروہ بہت چارج تھے اور نئی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ اس سڑک پر پولیس کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
یہاں موجود لوگ جلسے میں ہونے والی تقاریر اس لیے سن سکتے تھے کہ لاؤڈ اسپیکرز یہاں بھی لگائے گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سی فیملیز جو سڑک کنارے یا فٹ پاتھ پر بیٹھی تھیں۔ وہ اب یا تو آگے نہیں جانا چاہتی تھیں یا انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اگر وہ کسی بھی طرح باغِ جناح پہنچنے میں کامیاب ہو بھی گئے۔ تب تک دیر ہو جائے گی تو انہوں نے یہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔
نوجوان شور مچاتے نعرے لگاتے بے پرواہ سڑکوں سے گزرتے دکھائی دیے تو لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج کے جلسے کے لیے ان کا اہتمام کئی روز سے جاری تھا۔ میچنگ کپڑے، چوڑیاں اور دوپٹے بتارہے تھے کہ وہ کتنے شوق سے اس دن کی تیاری کر کے آئی ہیں۔
رات کے ساڑھے دس بجے میری نظر ایک فیملی پر پڑی جس میں ایک بوڑھا جوڑا ایک نوجوان لڑکی سے اپنی تصویر بنوا رہا تھا اور ان کے عقب میں مزار قائد روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔
یہ فیملی اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ جلسے میں شریک ہونے آئے تھے اور ان کے پاس فولڈنگ کرسیاں بھی تھیں۔
اس تصویر کے بنتے ہی تین خواتین جن کی عمریں کوئی 50 کے لگ بھگ ہوں گی، ان کا گزر میرے قریب سے ہوا۔ انہوں نے اپنے موبائل کے فرنٹ کیمرا میں اپنا میک اپ چیک کیا اور کہا بس اب تیز چلو خان صاحب کی تقریر سے پہلے پہنچنا ہے۔ ورنہ اتنی دور سے آنے کا کیا فائدہ ہوا۔
حیدرآباد سے آئی اسکول ٹیچر تبسم اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ جلسہ گاہ تو نہ پہنچ سکیں لیکن انہیں یہ اطمینان ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں ضرور ہوتا ہے جو اس ملک کی بہتری کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ان کی آخری امید ہے۔ وہ ایک ایسا پاکستان دیکھنا چاہتی ہیں جہاں امیر اور غریب سب برابر ہوں۔ جہاں اعلیٰ عدالتیں امیروں کے لیے راتوں کو نہ کھلیں بلکہ ناظم جوکھیو کی بیوہ کو انصاف دینے کے لیے بھی کھولی جائیں۔