پنجاب میں اسموگ: نجی دفاتر میں 50 فی صد حاضری کا حکم، مکمل حل کیا ہے؟

فائل فوٹو

صوبۂ پنجاب میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر عدالت عالیہ لاہور نے صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ اسموگ پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہر اِن دِنوں شدید فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہیں جس کے باعث لاہور، ملتان، فیصل آباد دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صوبے میں اسموگ کے بڑھنے کے پس پردہ کئی عوامل ہیں جن میں صرف دھان کی فصل کی کٹائی نہیں بلکہ دھویں کا اخراج اور بڑھتی ہوئی آلودگی بھی بنیادی سبب ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے جمعرات کو مقامی شہریوں کی درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن نے اسموگ ایمرجنسی کا منصوبہ پیش کیا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسموگ پر قابو پانے اور اس کے اثرات سے شہریوں کو بچانے کے لیے پنجاب حکومت کو نجی دفاتر میں 50 فی صد اسٹاف کے ساتھ کام کرنے کا نوٹی فیکشن جاری کرنے کا حکم دیا۔

تحریری فیصلے کے مطابق پچاس فی صد اسٹاف کے ساتھ کم از کم اگلے سات روز تک کام کا نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔

SEE ALSO: پاکستان میں 22 فی صد اموات کا سبب فضائی آلودگی ہے: رپورٹ

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری محکموں کے لیے بھی ایسے ہی اقدامات کیے جائیں جو نافذ ہو سکتے ہیں جب کہ عدالت نے چار سو سے زائد ایئر کوالٹی والے علاقوں میں اسکول بند کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم اے اسموگ کرائسس روم بنائے جس کا روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہو۔ ایسے ہی کرائسس روم گوجرانوالہ اور فیصل آباد ڈویژن میں بھی بنائے جائیں۔

ماحولیات سے متعلق سرگرم کارکن یاسین عاطف بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اور خاص طور پر صوبۂ پنجاب میں پہلی مرتبہ اسموگ سنہ دو ہزار 2016 میں شروع ہوئی تھی۔ جس پر عدالت نے نوٹس لیا تھا۔ اُن کے مطابق اگر اُس وقت عدالت میں جمع کرائے گئے منصوبے پر عمل کر لیا جاتا تو آج صورتِ حال مختلف ہوتی۔

'نمی، مٹی اور دھویں سے مل کر اسموگ بنتی ہے'

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یاسین عاطف نے کہا کہ پورا سال صوبے بھر میں کارخانے بھی چلتے ہیں، گاڑیاں اور ٹریفک بھی رواں دواں رہتی ہے لیکن اسموگ کا سیزن اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوتا ہے جب فضا میں نمی کا تناسب بہت بڑھ جاتا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ نمی، مٹی اور دھویں سے مل کر اسموگ بنتی ہے جو پھیپھڑوں کے امراض، بلند فشارِ خون، ذہنی تناؤ، جلدی امراض، سانس کے امراض اور آنکھوں کے امراض سمیت مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

یاسین عاطف کہتے ہیں تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ فضائی آلودگی میں کارخانوں، گاڑیوں اور اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں، تعمیراتی کام اور فصلوں کی باقیات جلانے سمیت دیگر عوامل اسموگ کا سبب بنتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

لاہور میں اسموگ کا پتا لگانے والے جدید سینسرز نصب

محکمۂ موسمیات کے مطابق بدھ کے روز لاہور شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس مجموعی طور پر 367 ریکارڈ کیا گیا۔ آنے والے دِنوں میں اسموگ مزید بڑھ سکتی ہے اور اگر یہی صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو دھند بھی جلد شروع ہو جائے گی۔

چیف میٹرولوجسٹ صاحبزادہ خان کہتے ہیں کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں صوبے کے مختلف شہروں میں بارش ہو سکتی ہے جس کے بعد اسموگ میں کمی کا امکان ہے۔

محکمۂ ماحولیات پنجاب کے فوکل پرسن عاصم رحمان کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلے پر من و عن عمل کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمے کے فوری اقدامات میں سڑکوں کی صفائی کو یقینی بنایا جائے گا، مٹی اکٹھی کی جائے گی اور پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا تا کہ کم سے کم دھول فضا میں شامل ہو۔

SEE ALSO: لاہور کی آلودہ ہوا اور ایئر کوالٹی انڈیکس، معاملہ ہے کیا؟

کسان اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فصل سمیت کسی بھی چیز کو جلایا نہ جائے لیکن وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اِس موسم میں دھان کی باقیات کو کاٹنا بھی ضروری ہے۔ جس پر حکومت فیصلہ تو سناتی ہے کہ دھان کی فصل کی باقیات کو کاٹا نہ جائے لیکن حکومت اِس کا حل نہیں بتاتی۔

پاکپتن سے زمیندار راؤ حامد علی خاں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھان کی فصل چند ایکڑوں پر نہیں بلکہ پورے صوبے میں کاشت ہوتی ہے اور اس کی کٹائی کے تین طریقے ہیں۔

ان کے بقول پہلا روایتی طریقہ ہے جس میں کسان ہاتھ سے فصل کاٹتا ہے جب کہ دوسرا طریقہ ہارویسٹر ہے یعنی مشین کے ذریعے کٹائی جس میں فصل کی کٹائی بے ترتیب طریقے سے ہوتی ہے۔ ان کے بقول اِس طریقے سے جب فصل کٹتی ہے تو اس کے ذرات ہوا میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کے بعد اُس کی باقیات کو بحالتِ مجبوری جلایا جاتا ہے۔

راؤ حامد کہتے ہیں فصل کی کٹائی کا تیسرا طریقہ 'کبوٹہ' ہے جس میں فصل کو مشین کے ذریعے ایک خاص ترتیب سے کاٹا جاتا ہے اور بچ جانے والی باقیات کسانوں کے کام آتی ہے۔

راؤ حامد کی رائے میں حکومت کو ہارویسٹر پر پابندی لگانی چاہیے یا اِس کا متبادل کسانوں کو بتانا چاہیے۔