امریکی صدر جو بائیڈن نےحال ہی میں ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے جس کےتحت افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں میں سے تقریباً نصف کو نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین کےلیے مختص کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
وائٹ ہاوس کے مطابق بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے اثاثے افغانستان میں انسانی امداد کے لیے تشکیل دیے گئے ٹرسٹ فنڈ میں رکھے جائیں گے۔
افغانستان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے فنڈز، جو نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں جمع تھے، اگست 2021ء میں جب صدر اشرف غنی کی حکومت معطل ہوئی اور طالبان نے اقتدار سنبھالا تو یہ رقم منجمد کردی گئی۔
امریکہ میں موجود افغان اثاثوں کا نائن الیون سے کیا تعلق ہے؟
گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان میں حکومت کرنے والے طالبان نے نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے اور دہشت گرد گروپ القاعدہ کو ختم کرنے کے امریکی مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ برسوں سے نائن الیون کے متاثرین کے اہل خانہ امریکی عدالتوں کے ذریعے مالی معاوضے کے حصول کی کوششیں کررہے ہیں اور گزشتہ برس طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعد ان کی معاوضوں کے حصول کی کوششوں کو نئی جہت ملی ہے۔
نائن الیون کے معاوضوں کے دعویداروں کے لیے افغان اثاثوں میں سے فنڈز رکھنے کے اخلاقی جواز سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر بائیڈن انتظامیہ کے ایک سنیئر اہلکار نے وی او اے کو بتایا کہ " ایک جج پہلے ہی اس فنڈ کو منجمد کرنے کا حکم امتنائی دے چکے ہیں، تاکہ ان دعویداروں کے مقدمے کی سماعت مکمل ہوسکے۔"
اہلکار نے کہا کہ فنڈز اس وقت تک رکھے جائیں گے جب تک نائن الیون متاثرین کے دعوے کی سماعت امریکی عدالتوں میں مکمل نہ ہوجائے اور ہمارے ملک کے قانون او ر اقدار کے مطابق کوئی فیصلہ نہ آ جائے۔
افغان اثاثے استعمال کرنے کا فیصلہ اب کیوں کیا گیا؟
بائیڈن انتظامیہ کے پاس گیارہ فروری تک امریکی عدالت کو یہ بتانے کی مہلت تھی کہ اس کے خیال میں نیویارک فیڈرل ریزرو میں منجمد افغان حکومت کے سات ارب ڈالر کا کیا کیا جائے گا۔ یعنی ان اثاثوں کو غیر معینہ مدت کے لیے منجمد کیا جائے، انہیں افغانستان کو واپس کردیا جائے یا نائن الیون کے متاثرین کے خاندانوں میں بانٹ دیا جائے؟
SEE ALSO: بائیڈن نے افغانستان کے منجمد اثاثے دو حصوں میں تقسیم کر دیےجج اس سال دوبار مہلت میں توسیع کرچکے تھے تاکہ حکومت کو اس کیس کے تمام قانونی پہلووں کا جائزہ لینے کے لیے مناسب وقت مل سکے۔ نائن الیون کے تقریباً ڈیڑھ سو متاثرین کے رشتہ داروں کے وکیل، اینڈریو میلونی کے نزدیک اب تک اس فنڈ کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا۔
میلونی نے وی او اے کو بتایا کہ "ہمارا خیال ہے کہ اسے فوری طور پر ایک ایسے اکاونٹ میں ڈالا جانا چاہے جس سے عدالت یہ یقینی بنا سکے کہ رقم یکساں اور منصفانہ طور پر ان خاندانوں میں تقسیم ہوگی جنھوں نے نائن الیون میں اپنا کوئی پیارا کھو دیا تھا۔"
لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ رقم افغان عوام کی ہے اور اسے افغانستان کو درپیش معاشی اور انسانی بحران کو کم کرنے میں مدد کے لیے جاری کردیا جانا چاہیے۔
لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم گلوبل ویٹنس میں افغان امور کے نگراں اسٹیفن کارٹر کہتے ہیں کہ، "نائن الیون کے متاثرین کی تکلیف یقنناً جائز ہے جس کا وہ حل چاہتے ہیں۔ لیکن ہم اسے فیصلے کی واحد وجہ نہیں بناسکتے۔یہ اخلاقی طور پر ضرور ی ہے اور عملی طور پر بھی ۔
نائن الیون متاثرین کے اہل خانہ کا ردعمل:
نائن الیون کے متاثرین کے کچھ خاندانوں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔نائن الیون کے متاثرین میں سے ایک بروس ایگلسن کے بیٹے بریٹ ایگلسن نے اپنے اور نائن الیون کے بہت سے دیگر متاثرین کی ایما پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ" ہم ان منجمد اثاثوں کے ایک بڑے حصے کی خوفناک انسانی بحران کو کم کرنے اور افغانستان میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے تقسیم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ تاہم وہ فنڈ جو نائن الیون کے متاثرین کے اہل خانہ کے لیے ہو، وہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے، جو کہ انتظامیہ کے اس اقدام سے ہو رہا ہے، اس سے نائن الیون میں ہلاک ہونےوالوں کے خاندان آپس میں لڑ پڑیں گے ۔ یہ غلط ہے اور ٖغیر منصفانہ ہے اور ناانصافی ہے''۔
افغانستان کو فنڈز کا نصف کیسے جاری کیا جائے گا؟
نامہ نگاروں کو دی گئی ایک بریفنگ میں بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار نے تسلیم کیا کہ " ایسی صورتحال کی کوئی مثال نہیں ہے" کہ امریکہ نے کسی ایسی حکومت کے سات ارب ڈالر رکھ لیے ہوں جس کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا کہ، "میرے خیال میں ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ داری سے کام کررہے ہیں کہ اس رقم کا ایک حصہ ملک کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ افغان عوام کی ضروریات کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کی ترسیل کا کیا منصوبہ رکھتی ہے۔ اہلکار نے کہا کہ ابھی ہم اس ٹرسٹ فنڈ کے طریقوں اور اس کےمخصوص استعمال کے انتظامی ڈھانچے پر کام کررہے ہیں۔
سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈانٹرنیشنل اسٹڈیز واشنگٹن میں انسانی ہمدردی کے ایجنڈے کے ڈائریکٹر اور سنیئر فیلو جیکب کرٹزر نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغان عوام کے اثاثے ہیں۔یہ طالبان کے اثاثے نہیں ہیں۔اس طرح ان کو منجمد کرنا او ر اپنے اندرونی حساب کتاب کے مطابق الگ کرنا ، میرے خیال میں افغانستان کے عوام اس کردار کے بارے میں غلط پیغام دے گا جو امریکہ ایسے وقت میں ادا کر رہا ہے جب وہ ملک انسانی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔"
کرٹزرنے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کےلیے اب اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ وہ افغان معیشت کو سہارا دے تاکہ وہ ملک صرف امداد پر انحصار نہ کرتا رہے۔ اور یہ ایک پیچیدہ کام ہے کیونکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
طالبان سے معاملات طے کرنے کی پیچیدگیاں:
واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیچو ٹ میں جنوبی اور وسطی ایشیا ئی امور کے ڈائریکٹر حسین حقانی نے کہا ہے کہ بائیڈن کا فیصلہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ طالبان بدلے نہیں۔بقول حسین حقانی، " یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کا اس حکومت کے اثاثوں کے بارے میں دعویٰ درست نہیں ہے جس کو گرانے کے لیے وہ لڑرہے تھے ۔ طالبان اور ان کے معذرت خواہ صرف افغانستان میں انسانی تباہی کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے اس رقم کولینے کی کوشش کررہے ہیں جو عالمی برادری نے ایک بالکل مختلف افغانستان کے لیے فراہم کی تھی۔"
ادھر بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہاہے کہ صدر بائیڈن کا اقدام آئین اور امریکی قانون بشمول انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاور ایکٹ میں دیے گئے اختیارات کے عین مطابق ہے۔ یہ ایکٹ صدر کو قومی ایمرجنسی کے اعلان کے سلسلے میں مختلف اقتصادی لین دین کو منظم کرنے کے وسیع تر اختیارات دیتا ہے ۔