سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسماعیل ان دنوں ’ری امیجننگ پاکستان‘ کے پلیٹ فورم کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ کوئٹہ اور پشاور میں اس پلیٹ فورم کے تحت بڑے پروگرام ہوچکے ہیں۔اسی وجہ سے کراچی میں ان کے پروگرام کا شدت سے انتظار تھا۔
گزشتہ اتوار کو یہ پروگرام کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں منعقد ہوا۔اس سے قبل یہ سیمینار 18 فروری کو آئی بی اے سٹی کیمپس میں منعقد ہونے والا تھا جو کراچی پولیس کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کے تناظر میں ملتوی کردیا گیا تھا۔
دوران سیمینار مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ انہیں آئی بی اے کیمپس اور پھر آرٹس کونسل آف پاکستان میں بھی یہ پروگرام منعقد کرنے کی اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے حبیب یونی ورسٹی میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ مقامات پر انہیں پروگرام کی اجازت کیوں نہیں ملی؟
ہم جب سیمینار میں شرکت کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ پہلا سیشن شروع ہونے سے قبل ہی ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔وہاں مختلف پس منظراورقومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد دکھائی دے رہے تھے۔ یہی تنوع کراچی کی پہچان ہے جس کی جھلک اس مجمعے میں بھی نظر آرہی تھی۔
سیشن شروع ہونے سے قبل اپنی گفتگو میں مفتاح اسماعیل نے واضح کیا کہ جب وہ وزیرِ خزانہ ہی تھے اور مصطفیٰ نواز کھوکھر اس وقت سینیٹر تھے، تبھی وہ یہ بات سوچ چکے تھے کہ جس طریقے سے حکومت چلائی جارہی ہے، اس طرز حکمرانی سے ہم تمام پاکستانیوں کو ساتھ لے کر نہیں چل پارہے۔
مقررین نے ایسے حقائق سامنے رکھے جو خود کئی اعتبار سے حیران کن اور نئے تھے۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں 60 فی صد ایسے لوگ ہیں جن کے پورے خاندان کی کُل آمدن 34 ہزار روپے ماہانہ سے بھی کم ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے تو بعض ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں 70 فی صد خاندانوں کی آمدن 34 ہزار روپے سےبھی کم ہے۔
ان حقائق نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایندھن، بجلی، گیس، پانی کے بل ہوں یا بچوں کے اسکولوں کی فیسز، گھر کے کرائے یا پھر دیگر اخراجات بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ کیسے پورے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر وہ ایسے میں کوئی عام آدمی اپنے خاندان اور اپنی صحت پر کیا خرچ کرپاتا ہوگا؟
ہر سال 55 لاکھ بچے
سیمینار میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں ہر سال 55 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں اور یوں پاکستان میں آبادی بڑھنے کا تناسب بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں میں اضافے کا تناسب تیز ترین ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ کس تناسب سے ہورہا ہے اسے سمجھنے کے لیے یہی مثال کافی ہے پاکستان میں ہرسال اسلام آباد اور فیصل آباد جیسے دو بڑے شہروں کی آبادی کے برابر بچے پیدا ہورہے ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان 55 لاکھ بچوں کے لیے ہمارے پاس اسکول، صحت، نوکریاں، اسپتال، اناج، کھیلنے کے لیے پارک اور دیگر وسائل ہیں؟ کیا ہم نے ان کے لیے مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ ہمارے ہاں تو آبادی کی منصوبہ بندی پر سنجیدگی سے بات چیت ہی نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں مسائل بڑھیں گے نہیں تو کیا کم ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کی رفتار یعنی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں افریقہ کے انتہائی پس ماندہ ممالک سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔
سیمینار میں تعلیم سے متعلق اعداد و شمار بھی انتہائی تشویش ناک تھے۔ مقررین نے بتایا کہ پاکستان میں محض 44 فی صد بچے میٹرک کرپاتے ہیں جبکہ بھارت میں یہ تعداد 85 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
تعلیم کی صورتِ حال کا موازنہ جب اس پر کیے جانے والے اخراجات سے کیا جاتا ہے تو صورتِ حال اور بھی گمبھیر نظر آتی ہے۔ پاکستان کا تعلیم کا بجٹ دو ہزار ارب روپے ہے جس میں سے تمام صوبے ملا کر تعلیم پر ایک ہزار ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ صوبوں کے فراہم کردہ فنڈز پر ملک بھر کے صرف 25 فی صد بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ تعلیمی معیار کا عالم یہ ہے کہ یہاں بچے ریاضی اور سائنس دونوں شعبوں میں بری طرح فیل ہورہے ہیں۔
برآمدات نہ بڑھنے کے اسباب
سیمینار میں پاکستان کی برآمدات نہ بڑںے کی چار وجوہ کی بھی نشان دہی کی گئی۔ ان میں سے امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کو اولین وجہ قرار دیا گیا۔ دوسری اہم وجہ یہ سامنے آئی کہ ہم درآمدات پر پابندیاں لگا کر مقامی انڈسٹری کو تحفظ دیتے ہیں اور انہیں یہ ترغیب ہی نہیں دیتے کہ وہ بھی عالمی معیار کی اشیا پیدا کریں۔
تیسرا معاملہ توانائی کی قیمتوں اور پائیدار دست یابی کا ہے۔ پاکستان میں توانائی کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہوجاتی ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری تیار کردہ مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کھو بیٹھتی ہیں۔ چوتھا سبب روپے کی اصل قدر سے زیادہ قیمت کا تعین ہے۔شرکا کا کہنا تھا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی جھونک کر روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بڑھانے سے بھی ملکی برآمدات کی حوصلہ شکنی اور درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ 1998 میں ویت نام اور پاکستان کی برآمدات 12 ارب ڈالر تھیں لیکن پاکستان اب بمشکل 30 ارب ڈالر پر پہنچا ہے جب کہ صرف نو کروڑ 60 لاکھ آبادی رکھنے والے ملک ویت نام کی برآمدات 300 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔
ٹیکس کون لے گا؟
پاکستان 22 مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کرچکا ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی تھمتا نظر نہیں آرہا۔ یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب پاکستان کی ٹیکس جمع کرنے اور برآمدات کی شرح اس کی کُل آمدن (جی ڈی پی) کا 15 فی صد نہیں ہوجاتیں۔اس وقت یہ شرح بالترتیب 11 اور 9 فی صد ہے۔
اس ملک کے امیر ترین طبقے نے اپنی ساری دولت ذراعت، رئیل اسٹیٹ اور تجارت (ری ٹیل سیکٹر) میں لگائی ہوئی ہے، اور پھر وہی لوگ بیورکریسی، سیاست، فوج اور عدلیہ میں حاوی ہیں۔ ایسے لوگوں کو کون زیادہ ٹیکس دینے پر آمادہ کرے گا؟ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے بجائے حکومت وفاق اور صوبے اور ان کے ماتحت ادارے سبھی شاہی اخراجات کے عادی بن چکے ہے۔
حال یہ ہے کہ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں 3 برسوں کو چھوڑ کر ہر سال جاری اخرجات (کرنٹ اکاونٹ) میں ہم نے خسارے ہی کئے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آمدن اٹھنی اور خرچہ روپیہ۔
’ خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا رہے گا‘
سیمینار میں بیش تر مقررین اس بات پر قائل نظر آئے کہ قومی دھارے اور معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کےبغیر ملکی ترقی کا خواب پورا ہونا ناممکن ہے۔
خواتین اور خواجہ سرا پینلسٹس نے گھریلو تشدد، 18 سال سے کم عمرکی شادی کرنے سے متعلق قانون اور خواجہ سراؤں سے متعلق قانون منظور نہ کرنے پارلیمان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اداروں میں عدم توازن
سمینار کا سب سے جاندار سیشن ملک میں طرزِ حکمرانی سے متعلق تھا۔ اس سیشن کے مقررین نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک وہاں سب کچھ عدالتی کندھوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مقننہ اور انتظامیہ تو اپنے حصے کا کام نہ کریں یا وہ اس قدر کمزور ہوں کہ وہ اپنی ذمے داریاں بھی ریاست کے دوسرے ستونوں پر ڈال دیں تو ملکی اداروں کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجائے گا۔
اس قدر تفصیلی آئین ہونےکے باوجود بھی ہمارے سیاست دان سیاسی مسائل، مقننہ اور انتظامیہ کے مسائل حل کرنے کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ریاست میں افراتفری بڑھتی جارہی ہے۔ ریاست تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے، اس کی انتظامی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام کی نظر میں ریاست و حکومت کی حاکمیت کا قانونی تصور دھندلا چکا ہے۔ ایسے میں افراتفری میں مزید اضافہ نہ ہو تو اور کیا ہو؟
یہ سب سن کر کوریج کے لیے آنے والے اپنے ایک دوست سے کہا کہ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ سب تو ہم پاکستان میں ہوتا ہوا دیکھ ہی رہے ہیں لیکن ملک تو پھر بھی چل رہا ہے۔ تو اس کا جواب تھا کہ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر ایسے ہی ملک چلتا ہے جیسا چلتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔
دل کا بوجھ اور بھی بڑھ گیا جب پتا چلا کہ پاکستان اس وقت ایچ آئی وی ایڈز کے بہت بڑے وبا کے سائے میں ہے جو کسی بھی وقت ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آجائے گی۔ اسی طرح ملک میں ہیپاٹائٹس سی اور ذیابیطس کا مرض بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور پاکستان میں ان امراض کے پھیلاؤ کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک صحت کے بحران کو قومی سالمیت کے مسئلہ کے طور پر دیکھ کر اسے حل کرنے کی کوششیں نہ ہوں۔
’سیاسی نظام میں ملک کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی‘
سیمینار میں پیش کئے گئے اعداد و شمار اور تلخ حقائق سے جہاں دل بوجھل ہورہا تھا وہیں کچھ سیاسی قائدین نے کھُل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا جس سے یہ تو تسلی ہوئی کہ کچھ لوگ اب بھی سچ بولنے سے گھبراتے نہیں چاہے وہ کتنا ہی ترش کیوں نہ ہو۔
SEE ALSO: سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا دعویٰ؛ پاکستان میں اب یہ 'خلا' کون پر کر رہا ہے؟سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج ملک کو درپیش مسائل ایک دو حکومتوں کے پیدا کردہ نہیں بلکہ دہائیوں کی غفلتوں کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے قبل سیاسی دیوالیہ ہوچکا ہے۔ جس میں وہ خود کو بھی مجرم نہ سہی تو اس میں ملزم ضرور سمجھتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ آج کی پارلیمان میں قانون سازی عوام کے لیے نہیں بلکہ فقط حکومت کی سہولت کے لیے کی جاتی ہے۔سابق وزیرِ اعظم کی بے لاگ گفتگو کو شرکا نے سراہا۔