پاکستان کی وفاقی حکومت نے کرونا وائرس کے پیش نظر خراب معاشی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت معیشت کے مختلف سیکٹرز کو 1200 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
اس سوال پر کہ کیا یہ سبسڈی کافی ہو گی اور کیا اس سے جمود کا شکار معیشت کا پہیہ چلانا ممکن ہو گا؟، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چیمبر آف کامرس کے صدر آغا شہاب نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکج کو تاجروں کی توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آغا شہاب کا کہنا تھا کہ تاجروں کو توقع تھی کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 10 فی صد سے کم کی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اسی طرح معاشی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے برآمدکنندگان کو فوری ریبیٹ اور دیگر رعایت دینے کا وعدہ تو کیا گیا ہے لیکن ان کے خیال میں حکومت کے لیے یہ وعدہ پورا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
آغا شہاب کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو مینیوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے مزید خصوصی رعایت کا اعلان کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ بہت سے برآمد کنندگان کے آرڈرز منسوخ ہو گئے ہیں۔
ان کے بقول اگر یہ صنعتیں اس مشکل وقت میں کام کرتی رہیں تو اسی سے حکومت کو ٹیکس کی وصولی اور پھر تجارتی خسارے کو قابو پانے میں مدد ملے گی جب کہ لوگوں کا روزگار بھی برقرار رہے گا۔
ان کے خیال میں اس طرح کرونا وائرس کی وبا سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
آغا شہاب کا کہنا تھا کہ اس وقت آنے والے حالات کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وبا کے پھیلاؤ سے معاشی سرگرمیاں مسلسل متاثر ہو رہی ہیں اور عالمی تجارت بھی گراوٹ کا شکار ہے لیکن اب تک واضح نہیں کہ یہ صورت حال کس حد تک خراب ہوگی۔
ان کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں کاروبار کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مشکلات ہوں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب معاشی ماہر اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کے مطابق ایک جانب شرح سود کی کمی حوصلہ افزا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں بھی شرح سود میں کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت کا پہیہ چلنے میں مدد ملے گی۔ کیش فلو میں آسانی ہوگی۔
ان کے بقول شرح سود میں کمی سے بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ برآمدات بھی بڑھ جاتی ہیں جب کہ دوسری جانب تیل کی قیمتیں کم ہونے سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی کی توقع ہے۔
سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ معاشی پیکج میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو ہوگا۔ قیمتوں میں کمی یا کم از کم استحکام آئے گا۔ اسی طرح برآمدی صنعتوں کو فوری ٹیکس کی فراہمی کے لیے 100 ارب روپے جاری کرنے سے بھی برآمد کنندگان کو کسی حد تک ریلیف ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمال اور میڈیم سائز انڈسٹریز کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنا بھی حکومت کی جانب سے خوش آئند اقدام ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سمیع اللہ طارق کے مطابق ہمارے ہاں چونکہ کم ترین تنخواہ 17 ہزار روپے مقرر ہے تو اس لحاظ سے حکومت کی جانب سے 70 لاکھ غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے فی خاندان 3 ہزار روپے امداد بہت کم نظر آتی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن اور اس سے معاشی سرگرمیوں میں تعطل کے باعث ملک کی جی ڈی پی کا دو سے تین فی صد نقصان ہو چکا ہے۔ جو 10 سے 15 ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے یہ پیکج تو ناکافی نظر آتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ حکومت نے جس معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے وہ اس کی استطاعت کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نقصان میں اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی مندی شامل نہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس معاشی پیکج کا اثر یقینی طور پر وہاں بھی مثبت انداز میں پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے منگل کے روز معاشی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی، مزدور طبقے کے لیے 200 ارب روپے، میڈیکل ورکرز اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50، 50 ارب روپے جب کہ 100 ارب روپے برآمدی صنعت اور 100 ارب روپے تاجروں کو ری فنڈ کی مد میں دینے کے لیے مختص کیے ہیں۔
اس کے علاوہ کھانے پینے کی مختلف اشیاء پر ٹیکسز میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق اس معاشی پیکج کا کل حجم 1200 ارب روپے بنتا ہے۔