|
عید پراپنے خطبے میں افغان سپریم لیڈر اخوندزادہ نے کہا کہ وہ خود کو سپریم لیڈر کے طور پر ہٹانے کے کسی بھی فیصلے کو اس صورت میں رضامندی سے قبول کریں گے، جب تک کہ ان کی برطرفی پر اتحاد اور اتفاق ہو۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ افغان سپریم لیڈر کی اتحاد کی اپیل کا مقصد اختلافات کے امکانات روکنے کا پیشگی اقدام ہو سکتا ہے۔
پیر کے پیغام میں، اخوندزادہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ چاہتے ہیں اور وہ شہریوں اور طالبان حکام کے درمیان اختلافات سے ناخوش ہیں۔
ہیبت اللہ اخوندزادہ نے عید الاضحی کے تہوار کے موقع پر جنوبی صوبے قندھار کی ایک مسجد میں خطبے کے دوران یہ بات ایک ایسے وقت کی ہے جب طالبان کا ایک وفد اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں افغانستان پر مذاکرات میں شرکت کے لیے دوحہ، قطر جانے والا ہے ۔
طالبان کے سپریم لیڈر نے پیر کے روز افغانوں کو ایک ایسے وقت میں پیسہ کمانے یا دنیاوی عزت حاصل کے خلاف بھی انتباہ کیا جب ملک انسانی بحران کی لپیٹ میں اور عالمی سطح پر الگ تھلگ ہے۔
طالبان کے احکامات پر عوامی اختلاف شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، اور احتجاج کو تیزی سے اور بعض اوقات پرتشدد طریقے سے کچل دیا جاتا ہے۔
لیکن وہ لوگوں کے درمیان اختلافات اور نا اتفاقی سے ناخوش تھے۔
SEE ALSO: طالبان سپریم لیڈرکے غیر معمولی عید خطاب میں عالمی رہنماؤں پر تنقیداخوندزادہ نے کہا کہ "ہمیں اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ پیسہ کمانے یا دنیاوی عزت حاصل کرنے کے لیے۔"
انہوں نے کہا کہ،’’ ہمارا اسلامی نظام خدا کا نظام ہے اور ہمیں اس پر قائم رہنا چاہیے۔ ہم نے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ ہم (افغانستان میں) انصاف اور اسلامی قانون لائیں گے لیکن اگر ہم متحد نہیں ہوئے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ کے اختلاف کا فائدہ دشمن کوہوتا ہے۔ دشمن اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔’
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
افغانستان اور طالبان کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ،پاکستانی صحافی اور مصنف احمد رشید نے کہا کہ اخوندزادہ کی اتحاد کی اپیلیں مایوسی کی علامت ہیں کیونکہ انہوں نے افغانوں کو درپیش حقیقی مسائل ، مثلاً بے روزگاری، اقتصادی ترقی اور معاشرتی اصلاحات پر اتفاق رائے کے بارے میں بات کرنے سے احتراز کیا۔
احمد رشید نے کہا کہ "اگر میں طالبان ہوتا تو میں اسے ایک با معنی تقریر سمجھنے پر قائل نہ ہوتا ۔"
ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ اخوندزادہ کی اتحاد پر توجہ کا مقصد اختلافات دوبارہ بھڑکنے کے امکانات کو ختم کرنے کا ایک پیشگی اقدام ہو سکتا ہے ۔
SEE ALSO: افغان طالبان کا اقوامِ متحدہ کے تحت دوحہ مذاکرات کے تیسرے دور میں شرکت کا اعلاناخوندزادہ نے اپنے 23 منٹ کے خطبے میں افغان باشندوں کو بطور مسلمان ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائی اور بار بار اتحاد کی اپیل کی ۔
اپریل میں ایک مذہبی تہوار کے موقع پر ان کے اور طالبان کی ایک اور بااثر شخصیت سراج الدین حقانی کے پیغامات سے سخت گیر اور زیادہ اعتدال پسند عناصر کے درمیان کشیدگی ظاہر ہوئی،جو سخت پالیسیوں کا خاتمہ اور مزید بیرونی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دوحہ اجلاس: اقوام متحدہ
دوحہ اجلاس میں طالبان کی شرکت، اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے مذاکرات کا پہلا دور ہے جس میں طالبان شرکت کریں گے ۔ انہیں پہلے دور میں افغانستان کے لیے غیر ملکی خصوصی ایلچیوں کی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا، اور انہوں نے دوسرے دور کو اس لئے مسترد کر دیا تھا کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں ملک کے سرکاری نمائندوں کے طور پر ٹریٹ کیا جائے ۔
کوئی بھی حکومت طالبان کو افغانستان کے جائز حکمرانوں کے طور پر تسلیم نہیں کرتی،جب کہ امداد پر انحصار کرنے والی ان کی معیشت ا اقتدار پر ان کے قبضے کے بعد بحران کا شکار ہو گئی تھی ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ جون کے آخر میں دوحہ اجلاس کی دعوت کا مطلب طالبان کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔
طالبان نے اسلامی قانون کی اپنی تشریح کو 11 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے، عوامی مقامات پر خواتین پر پابندی لگانے، انہیں بہت سی ملازمتوں سے خارج کرنے، اور لباس کے ضابطوں اور مردوں کی سرپرستی کے تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے استعمال کیا ہے۔
اخوندزادہ نے طالبان حکام سے کہا کہ وہ علمائے دین کے مشورے سنیں اور انہیں اختیار سونپیں۔ انہوں نے کہا کہ حکام کو تکبر، فخر یا اسلامی قانون کی سچائی سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔