|
نئی دہلی _ پاونی مشرا دہلی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ لوک سبھا کے انتخابات میں سیاسی رہنما ان مسائل پر توجہ دیں جن کا تعلق نوجوان ووٹرز سے ہے لیکن وہ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ منقسم سیاسی مہم کی وجہ سے نوجوانوں کے مسائل کہیں گم ہو سکتے ہیں۔
مشرا اس بات پر زور دیتی ہیں کہ بھارت کی سیاست میں مذہب کے بجائے سیاسی مقابلہ ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں سیاست دانوں کو تعلیم، روزگار، خواتین کی خودمختاری اور ملک میں نئے اسٹارٹ اپس پر بات کرنی چاہیے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک کو 2047 تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے اور غریب عوام کی مدد کے لیے پروگرام متعارف کرانے کا وژن پیش کیا تھا۔ لیکن گزشتہ ہفتے انتخابی جلسوں کے دوران انہوں نے اپوزیشن جماعت کانگریس پر مسلمانوں کو زیادہ فوائد دینے کے الزامات عائد کیے۔
اسی طرح وزیرِ اعظم مودی نے خواتین کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے کانگریس جماعت کو ووٹ دیا تو وہ ان کا سونا مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔
وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے حالیہ انتخابی جلسوں کے دوران اسی قسم کے نفرت آمیز بیانات کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ تاہم وہ خود پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انتخابات جیتنے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
وزیرِ اعظم مودی مسلسل تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے پرامید ہیں اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابات جیتنے کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کا چیلنج درپیش ہے۔
SEE ALSO: انتخابات کا تیسرا مرحلہ: مودی کا اپوزیشن پر ’ووٹ جہاد‘ کا الزام اور پاکستان کا ذکرکانگریس کے رہنما راہل گاندھی کو وزیرِ اعظم مودی کے حریف کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور وہ مسلمانوں کو فوائد پہنچانے کے وزیرِ اعظم مودی کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
انیس اپریل سے شروع ہونے والے بھارت کے لوک سبھا انتخابات سات مراحل میں ہو رہے ہیں۔ اب تک انتخابات کے چار مرحلے مکمل ہو چکے ہیں اور 20 مئی کو پانچویں مرحلے میں آٹھ ریاستوں کی 49 نشستوں پر ووٹنگ ہو گی۔
انتخابات میں ایک کروڑ 80 لاکھ ووٹرز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ ووٹ کا حق استعمال کریں گے جن میں سے لاکھوں انڈر گریجویٹ اسٹوڈنٹس ہیں جن کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ نئی آنے والی حکومت کس طرح ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے گی۔
بھارت میں یونیورسٹی سے فراغت کے بعد طلبہ کے لیے مناسب ملازمت حاصل کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
انیس سالہ طالب علم شہریاس سود کہتے ہیں وہ ایسی شفاف حکومت چاہتے ہیں جو ہر کسی کے لیے ملازمت حاصل کرنا یقینی بنائے۔ اسی طرح ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت تو انٹرن شپ حاصل کرنا ہی بہت بڑا چیلنج ہے اور اُن کے خیال میں ہر کوئی اس دباؤ میں ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے ایک اچھی ملازمت کا حصول خاصہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں لوک سبھا انتخابات؛ بی جے پی حصہ کیوں نہیں لے رہی؟عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں گریجویشن کرنے والے طلبہ کی بے روزگاری کی شرح 29 اعشاریہ ایک فی صد ہے جو کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں نو فی صد زیادہ ہے۔
بعض طلبہ کے خدشات کے باوجود بہت سے طالب علم وزیرِ اعظم مودی کی حمایت کر رہے ہیں جس کی وجہ ان کا مضبوط لیڈر کے طور پر خود کو پیش کرنا اور عالمی سطح پر بھارت کے ابھرتے ہوئے امیج کو متعارف کرانا ہے۔
مودی پہلی ترجیح
انڈر گریجویٹ طالبہ بی پررنا کہتی ہیں کہ ہم مودی پر یقین کرتے ہیں اور ان کے خیال میں بھارت وزیرِ اعظم مودی کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔
کئی دیگر طلبہ وزیرِ اعظم مودی سے متعلق اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں۔
بھارت کے لوکنیتی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پہلی مرتبہ ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں سے متعلق ایک سروے کیا ہے جس کے نتائج کے مطابق کئی نوجوان ووٹرز سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ان کی پہلی ترجیح ہیں۔
سروے میں شامل دو تہائی ووٹرز کا خیال تھا کہ وہ وزیرِ اعظم مودی کی جماعت بی جے پی کو ووٹ دیں گے کیوں کہ وہ قومی سطح کی حکومت چلانے کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔
SEE ALSO: نریندر مودی نے ہندوتوا کے نظریے کو بھارتی سیاست کا محور کیسے بنایا؟سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی نوجوان ووٹرز سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ قدرتی عمل ہے کہ آپ کا جھکاؤ اسی جانب ہونے لگتا ہے جہاں آپ کو ایک مضبوط، پرکشش اور ایسا شخص نظر آ رہا ہو جو نتائج دے سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کیسز میں وزیرِ اعظم مودی نوجوانوں کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔
بھارت کے بعض طلبہ کا کہنا ہے کہ کمزور اپوزیشن کی وجہ سے ان کا انتخاب محدود ہو گیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی انتخابی جلسوں کے دوران روزگار کے مسائل سمیت کالج طلبہ کے لیے انٹرن شپ دینے جیسے وعدے کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کانگریس ملک میں بڑھتی معاشی تقسیم کا خاتمہ کرے گی۔
'آزاد، لبرل حکومت چاہتے ہیں'
کالج اسٹوڈنٹ ستویک شرما کہتے ہیں کہ ان کا ووٹ مودی حکومت کے لیے ہو گا کیوں کہ وہ واحد شخص ہیں جو اس وقت مضبوط دکھائی دے رہے ہیں جب کہ ملک میں اپوزیشن جماعتیں بہت کمزور دکھائی دے رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان ووٹرز سمجھتے ہیں کہ ملک میں مودی کا متبادل موجود نہیں۔
رشید قدوائی کہتے ہیں اس وقت اپوزیشن بکھری ہوئی ہے جس کے پاس کئی مضبوط امیدوار ضرور ہیں لیکن وہ قومی سطح کے لیڈر نہیں ہیں جب کہ راہل گاندھی وزارتِ عظمیٰ کے لیے مناسب امیدوار نہیں۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں لوک سبھا انتخابات: سیاسی جلسوں میں پاکستان کا ذکر کیوں؟کئی طالبِ علموں کی طرح شرما بھی بی جے پی کے دورِ حکومت میں تقسیم کی سیاست پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ شرما کہتے ہیں کہ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو لبرل ہو، جہاں نوجوان آزاد ہوں اور ان کے نزدیک مذہب کے بجائے اپنا ملک زیادہ مقدم ہو۔
امل دیو کے کہتے ہیں "ہم اب بھی افسانوی مخلوقات اور دیوتاؤں اور مذاہب کے بارے میں لڑ رہے ہیں۔ اس کے بجائے ہمیں ملکی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔"
امل کے مطابق وہ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی آبائی ریاست کیرالہ نہیں جا سکے لیکن اگر وہ ووٹ دیتے تو 'نوٹا' کا انتخاب کرتے۔
بھارتی آئین ووٹرز کو ووٹنگ کی پرچی پر موجود 'نوٹا' آپشن کے انتخاب کا حق دیتا ہے اور ووٹرز یہ حق اس وقت استعمال کر سکتے ہیں جب وہ کسی بھی انتخابی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہتے ہوں۔ یعنی نوٹا کا آپشن انتخابی میدان میں موجود تمام امیدواروں پر ووٹر کے عدم اطمینان کی نشاندہی کرتا ہے۔