رپورٹر ڈائری: صحافی نے پوچھا کس کے پارٹی چھوڑنے پر خوشی ہوئی تو عمران خان ہنس پڑے

"عمران خان کی تسبیح کا سائز بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ ہاں ان کے کیسز کی تعداد بھی تو بڑھ رہی ہے۔" یہ کہنا تھا میرے برابر میں بیٹھے ایک صحافی کا جو عمران خان کے بالکل عقب میں موجود تھے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان جمعرات کو نو کیسز میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تو ایک بار پھر وہی ہٹو بچو کی صدائیں تھیں۔ عمران خان اپنے گارڈز کے حصارمیں ہائی کورٹ میں داخل ہوئے۔ کورٹ روم نمبر ایک کے باہر پولیس اہلکار رجسٹرار آفس کی طرف سے دیے گئے ناموں کے مطابق لوگوں کو داخل ہونے دے رہے تھے۔

اگرچہ کمرےکی گنجائش بہت زیادہ تھی لیکن عدالت میں صرف 60 سے 70 لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی جن میں 30 سے زائد تو صرف صحافی ہی تھے اور باقی عمران خان کے وکلا تھے۔

عمران خان کمرہ عدالت میں آئے تو تقریباً 40 منٹ کے بعد سماعت شروع ہوئی۔اس دوران عمران خان کے اردگرد صحافی جمع ہوگئے۔اس بار پولیس بھی اس کوشش میں تھی کہ کوئی بات چیت نہ ہو لیکن سب کی مشترکہ کوششوں اور عمران خان کی بات کرنے میں دلچسپی کی وجہ سے ان سے گپ شپ ہوگئی۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ کل جہانگیر ترین کے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے آپ کو کس کے جانے کا سب سے زیادہ افسوس ہوا؟ اس پر عمران خان مسکرانے لگے۔لیکن جب صحافی نے کہا اچھا کس کے جانے پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی؟ تو عمران خان کھلکھلا کے ہنس پڑے اور کوئی جواب نہ دیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

‘عمران خان کو مائنس بھی کر دیں تو تحریک انصاف کو فرق نہیں پڑے گا’

البتہ جب ان سے دوبارہ سوال ہوا کہ اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے تو عمران خان نے صرف اتنا کہا "جانے والوں کو میں گڈلک کہتا ہوں۔"

عمران خان سے جب بیرون ملک جانے کا سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ "میں کبھی باہر جانے کا نہیں سوچ سکتا، ساتھ ہی گرتی ہوئی کرنسی کی قدر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت 400روپے کا ایک پاؤنڈ ہے۔ انہوں نے تو مال بنایا ہوا ہے، ان کی تو جائیدادیں ہیں، میں نے تو یہیں رہنا ہے۔"

شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے یہ فارمولا دیا کہ اس وقت ہمارے ہزاروں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔ ایک ظلم ہو رہا ہے ہم نےان کو باہر لانا ہے۔تاہم جب ان سے پوچھا کہ شاہ محمود قریشی نے آپ کو خاموش ہونے کا کہا ہے تو ایک لمحہ توقف کے بعد عمران خان نے کہا کہ شاہ محمود نے ایسا کوئی مشورہ نہیں دیا۔

پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کی طرف سے فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ پر جب سوال ہوا کہ نو مئی کے واقعے میں ملوث کرداروں ،منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کہا گیا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

اس پر عمران خان بولے کہ نو مئی کو جنہوں نے بھی عمارتیں جلائی ہیں ان سب کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔اس پر آزاد تحقیقات ہونی چاہیے۔ لیکن پرامن احتجاج کرنے سے آئین نہیں روکتا۔ ایسا کوئی نو گو ایریا نہیں جہاں پرامن احتجاج نہیں ہو سکتا۔

SEE ALSO: 'فوج جارحانہ موڈ میں ہے لیکن زمینی حقائق کا جائزہ نہیں لیا جارہا'

عمران خان سے جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی افسران کے نام لینے سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ "جب کمانڈوز مجھے ایک جرائم پیشہ کی طرح اغوا کرکے لے جائیں گے تو میں انہی کانام لوں گا نا، میں انہی کو الزام دوں گا نا کیوں کہ یہ کمانڈوز ان کی مرضی کے بغیر تو ایسا نہیں کرسکتے تھے۔"

آئندہ انتخابات میں اپنی پارٹی چھوڑنے والوں کی واپسی کے سوال پر عمران خان نے کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں الیکٹیبلز سے آزاد کر دیا ہے۔ آئندہ الیکشن میں صرف پی ٹی آئی کا ٹکٹ چلے گا، ہر حلقے میں ہمارے پاس 7،7 امیدوار ہیں۔

فوجی عدالتوں کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ" آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کا مطلب "اینڈ آف جسٹس، اینڈ آف ڈیموکریسی۔" ساتھ ہی عمران خان نے آہستہ سے کہا کہ مجھےتو لگتا ہے کہ یہ میرے لیے ہی ایسا کر رہے ہیں۔

عمران خان کو نو کیسز میں ریلیف ملا اور ان کی ضمانتیں منظور کرلی گئیں جس کے بعد عمران خان کمرہ عدالت سے باہر کی طرف نکلے۔ جب وہ جانے لگے تو ان کے اردگرد موجود سیلفی کے شوقین کئی وکلا اکٹھے ہوگئے ۔