رپورٹر ڈائری: پانی کی دو سو بوتلیں اور مانگنے والے ہاتھ بے شمار

صوبہ سندھ میں سیلاب کی دوبارہ رپورٹنگ کے لیے وائس آ ف امریکہ کی ٹیم میٹنگ ہوئی اور میں نے فوراً حامی بھری۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی کہ جو کہانیاں پہلے پیش کیں اس بار ان سے زیادہ اور ان علاقوں میں جاکر سنی جائیں جہاں پہنچنا دشوار ہو۔ ہماری ٹیم کے پاس 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت تھا اور ہم ذہن بنا چکے تھے کہ شاید آفت زدہ علاقوں تک رسائی کے بعد ہمیں واپسی پر کوئی ایسی جگہ نہ مل پائے جہاں رات گزر سکے۔ اس لیے ہمارے پاس پینے کا پانی، کھانے کی اشیا کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروری سامان کی موجودگی لازمی ہو اس کا بندوبست ہم نے فوراً کیا۔

صبح چھ بجے ہمارا سفر کراچی سے ضلع دادو کی جانب تھا۔ ناشتہ ہم نے اپنے مقررہ مقام جامشورو پر کیا اور ناشتے کے وقت یہ سوچ تھی کہ جو کھا رہے ہیں شاید ہی اس کے بعد کچھ مل سکے۔ دادو کی طرف جاتے ہوئے گزر سہون کی جانب سے تھا۔

مارچ میں منچھر جھیل پر ایک رپورٹ بناتے وقت جن راستوں سے گزر ہوا وہ اب ویسے نہیں رہے۔ حدِ نگاہ تک پانی ہی پانی تھا اور فصلیں تبا ہ ہو چکی تھیں۔

اس راستے میں نظر آنے والی مساجد میں کھڑا پانی انہیں ویران کیے ہوئے تھا۔ جیسے جیسے دادو کی جانب بڑھتے جارہے تھے سڑک کے اطراف سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے اپنی چارپائیوں اور متاح حیات سمیٹے بیٹھے نظر آرہے تھے۔ ہم یوسف باغ کے علاقے میں موجود غیر معمولی رش اور پولیس، رینجرز کی موجودگی کے سبب رک گئے جہاں معلوم ہوا کہ اس جگہ بند توڑا جائے گا کیوں کہ منچھر میں پانی کی سطح اس قدر بلند ہوچکی ہے کہ پانی کی مقدار بتانے والے نشانات بھی اب ڈوب چکے ہیں۔

اس لیے سہون کو بچانے کے لیے یہاں بند توڑنا اب لازم ہو گیا ہے۔ بھاری مشینری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک تھے۔ رش ان لوگوں کا تھا جن کے گاؤں اس بند کے ٹوٹنے کے بعد زیر ِآب آنے تھے۔ پریشانی ان کے چہروں پر نمایاں تھی جیسے کہہ رہے ہوں کہ اب ہمارا کیا ہوگا۔

Your browser doesn’t support HTML5

سیلاب زدہ علاقے میں زچگی: 'نوزائیدہ بچی کے لیے کپڑے تک نہیں تھے'

ہم نے فوراً منچھر جھیل کی راہ لی۔ منچھر جھیل کے اطراف میں بھی پولیس اور آرمی بھاری مشینری کے ساتھ موجود تھی جب کہ کئی فور بائی فور گاڑیاں منچھر کے کنارے پر بنی کچی سڑک پرجو ایک طرح کا بند ہی کہلاتا ہے دوڑتی نظر آرہی تھیں۔ ہم کسی بھی طرح زیرو پوائنٹ پہنچ گئے جہاں سے پانچ سے چھ کلو میٹر کا سفر طے کر کے ہمیں اس مقام پہنچنا تھا جہاں منچھر سے نکلنے والی مچھلی جیٹی پر آتی ہے۔

یہ راستہ عموماً کسی بھی گاڑی پر 10 منٹ میں طے ہوجاتا ہے لیکن اس کچے راستے پر منچھر کے ماہی گیروں کے سینکڑوں خاندان اپنا سامان رکھے بیٹھے تھے یوں اس تنگ راستے سے ہم گزرتے ہوئے 40 منٹ میں جیٹی پہنچے جہاں کا منظر ہی الگ تھا۔

ایک افراتفری کا عالم اور چیخ و پکار جاری تھی۔ بے قابو منچھر کا پانی کسی سمندر سے بھی زیادہ بپھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ جیٹی پانی سے بھر چکی تھی اور اس کے ساتھ کھڑے چھوٹے بڑے ٹرکوں پر خاندان اپنا سامان چڑھانے میں مصروف تھے۔

ان سب میں صرف ایک شخص ایسا تھا جو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر کنارے پر ڈال رہا تھا کہ بند کو ٹوٹنے سے بچا سکے۔ اس کی کوئی مدد نہیں کر رہا تھا لیکن جو وہ کر رہا تھا وہ اپنوں کی مدد ہی تھی۔ ہم نے وہاں پر لوگوں سے بات کی اور جانا کہ وہ کہاں جائیں گے تو جواب آیا کہ سہون جائیں گے اگر وہ ڈوبا تو آگے نکل جائیں گے۔

بے حال لوگوں کی بستی میں جہاں سیلاب سب کچھ کھا چکا تھا مکان منہدم تھے وہاں ایک ایسا مکان مجھے نظر آیا جس کی دیواروں پر سجاوٹ ہوئی تھی رنگ برنگی چمک والی جھنڈیوں سے سجے کمرے کی تین دیواریں اور چھت گر چکی تھی۔ یہ گھر بتارہا تھا کہ کچھ روز پہلے یہاں کوئی خوشی تھی۔ شاید کسی کی شادی ہوئی ہو لیکن اب اس بستی میں کوئی نہ تھا۔

اس ڈوب جانے والے گاؤں کے ٹوٹے مکانوں پر نئے پارٹی پرچم لہرا رہے تھے جو بتارہے تھے کہ یہاں کس کی حکومت ہے یہ یاد رکھا جائے۔ سب کچھ تو تباہ تھا، برباد تھا اگر کچھ نیا تھا تو یہ جھنڈے۔ کسی بھی وقت بند ٹوٹ جائے اور ہم اس پانی میں پھنس جائیں اس سے پہلےہم نے نکلنے کا فیصلہ کیا . اس برباد گاؤں میں ایک شخص کچھ چنتا دکھائی دیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے کہا کہ پانی میں سے بہہ کر آنے والی مچھلیاں چن رہا ہوں اپنی پنکھیوں (شکاری پرندے) کو کھلاؤں گا۔

'سارا گاؤں خالی ہو گیا ہے سب چلے گئے میں واپس آیا ہوں اکیلا ہوں میری پنکھیاں دو روز سے بھوکی بیٹھی ہیں ان کے کھانے کی فکر مجھے ہی کرنی ہے تو یہ مچھلی چن کر لے جاؤں گا۔" صدیق ملاح نے جواب دیا۔

منچھر سے نکلتے ہوئے ایک عجیب منظر نے مجھے چونکا دیا۔ جھیل سے پانچ سو میٹر دور ایک ہوٹل پر مردوں کا رش دکھائی دیا۔ ہوٹل میں گرم گرم روٹیاں لگ رہی تھیں اور چائے کا دور جاری تھا۔ ہوٹل کے اندر لگ بھگ 100 کے قریب افراد ہوں گے جب کہ باہر موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں۔

یہ تمام لوگ ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے میں سوچنے لگی کہ کیا انہیں سیلاب کا خوف نہیں ابھی کسی بھی وقت منچھر کا بند ٹوٹ جائے گا یہ کتنا مطمئن بیٹھے ہیں؟ میری نظروں کے سامنے وہ بوڑھی عورتیں آگئیں جو کندھوں پر سامان لادے ٹرکوں پر لدوا رہی تھی اور جوان عورتیں بستر، صندوق اٹھا اٹھا کر پگڈنڈیوں تک پہنچا رہی تھی جنہیں کسی بھی آنے والی گاڑی پر لوڈ ہونا تھا۔ "آفت کوئی بھی ہو عورت اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔" یہ جملہ سیلاب سے متاثرہ ایک عورت نے کہا تھا جو میری سماعت میں گونجا۔

ہمارے پاس اطلاع تھی کہ دادو میں بہت سے سیلاب متاثرین پہنچ گئے ہیں ہم وہاں گئے تو ان کی تعداد ہماری سوچ سے زیادہ تھی۔ ایک امدادی ٹرک سامان دیے بغیر واپس جارہا تھا اور رینجرز اہلکار متاثرین کو پیچھے دکھیل رہے تھے عورتیں سر پیٹ رہی تھیں بچے ٹرک کے پیچھے دوڑ رہے تھے مرد ایک جانب غصے میں کھڑے تھے۔ ہمارے ساتھ موجود مقامی رضاکار نے ہمیں اس صورتِ حال میں گاڑی روکنے سے منع کیا اور کہا کہ یہاں رکنا اس وقت درست فیصلہ نہیں ہوگااس لیے آگے بڑھتے جائیں۔


یہ ٹرک سامان دیے بغیر کیسے جا رہا ہے؟ میں نے سوال کیا۔ میڈم سامان ان خاندانوں کے حسا ب سے کم ہے جیسے ہی راشن دینا شروع کیا جائے گا ہجوم ہلہ بول دے گا اس لیے اب امداد دینے والے اپنی جان بچاکر نکل رہے ہیں۔ لوگ اندازوں سے سامان لاتے ہیں جب کے لینے والے ہزاروں میں ہیں جسے نہیں ملے گا تو وہ یا تو چھینے گا یا راستہ روک لے گا۔

ہم ان عارضی کیمپوں سے آگے نکل کر وہاں پہنچے جہاں سے آگے اب گاڑی کا جانا ممکن نہ تھا اس سے آگے جوہی کا علاقہ تھا جہاں پہنچنے کے لیے چار سے پانچ فٹ پانی سے گزر کر صرف کشتی کے ذریعے ہی پہنچا جاسکتا تھا۔

دادو کا درجہ حرارت اس وقت 41 ڈگری سینٹی گریڈ کے پارے کو چھو رہا تھا۔ گاڑی سے نکلتے وقت ہاتھ میں مائیک، پانی کی ایک چھوٹی بوتل، پسینہ صاف کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا تولیے کا رومال لیے میں پیدل چل پڑی۔ میرے کیمرہ مین خلیل احمد اس رضاکار کے ہمراہ آگے آگے تھے۔ یہاں بھی افراتفری کا عالم تھا لوگ جوہی چھوڑ کر یہاں پہنچ رہے تھے کچھ ایسے تھے جو ڈوبے گھروں سے اب بھی نکلنا نہیں چاہتے تھے اشیائے خورونوش لینے آئے تھے اب واپس کشتی میں بیٹھ کر جارہے تھے۔

اس رش میں کون کیا کہہ رہا تھا سمجھ بھی نہیں آرہا تھا میں صورتِ حال کا جائزہ لے رہی تھی کہ اب یہاں کس سے بات کی جائے کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ آس پاس کی آوازیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں اور سامنے کا منظر دھندلا سا ہے ابھی میں اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ سامنے سے ایک بوڑھا سا شخص آتا دکھائی دیا۔

اس نے زور سے میرا بازو کھینچا اور کہا بیٹی پانی پیو فوراً پانی پیو۔ میرے ہاتھ سے پانی کی بوتل لے کر اس نے اس کا ڈھکن کھولا اور میرے سامنے کیا۔ میں نے ایک سانس میں بوتل ختم کی اب دھندلاہٹ کم ہوچکی تھی۔ وہ شخص جاچکا تھا۔ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر دو نوجوانوں نے ٹھنڈے پانی کے ڈرم رکھے ہوئے تھے جس پر سبیل لکھا تھا وہاں لوگ ان سے پانی لے کر پی رہے تھے۔

میں ان کے پاس گئی اور کہا کہ یہ رومال گیلا کردیں برف والے پانی سے تر یہ چھوٹا سا رومال میں نے اپنے سر پر رکھا اور آگے بڑھ گئی۔ کئی عورتیں، بچے اس کڑی دھوپ میں کشتی کے منتظر تھے۔

منچھر کے ملاحوں کی 10 کشتیاں ایک سو روپے فی سواری متاثرین سے لے کر ان کو ان زیر آب علاقوں سے نکال رہی تھی یہ راستہ آدھے سے ایک گھنٹے کا تھا یوں آنے والوں اور جانے والوں کا رش بڑھتا جارہا تھا۔ یہاں مجھے کئی حاملہ خواتین ملیں جو اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑے مٹھیوں میں دو سو تین سو روپے کشتیوں کا کرایہ پکڑے کھڑی تھیں۔ انہیں اس پر خطر سفر میں ہونے والے بچے کا بھی خوف تھا اور ساتھ سوار بچوں کی بھی فکر تھی۔

ابھی اس ڈر خوف پر ان خواتین سے بات جاری تھی کہ ایک کشتی جس میں ڈیزل کے چار بڑے ڈرم لادے گئے تھے پانچ مرد مسافروں سمیت الٹتی نظر آئی۔ میرے ساتھ کھڑی خاتون کا رنگ زرد پڑ گیا اور انہوں نے فوراً اپنی چھوٹی بچی کے آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا اور باتیں کر کے بہلانے لگیں کہ بچی کا دھیان اس کشتی پر نہ جائے۔ کنارے پر کھڑے ملاح تیر کر اس کشتی کے پاس گئے اور اسے کھینچ کر کنارے پر لائے۔

آپ دیکھ رہی ہیں کہ کیا حال ہے ہمارا؟ ہم کن حالات میں جی رہے ہیں کوئی نہیں آرہا ہماری مدد کو کم از کم حکومت کشتیاں تو چلادے یہاں کوئی شیڈ لگادے جو ہو رہا ہے اپنی مدد آپ کے تحت ہورہا ہے۔ بچے الگ ڈرے ہوئے ہیں میں حاملہ ہوں مجھے لگتا ہے کہ میرا ہونے والا بچہ بھی ڈر محسوس کرتا ہوگا، شمائلہ یہ کہتے ہوئے آزردہ ہوگئیں۔

دو گھنٹے میں میرے سر پر رکھا گیلا رومال پانچ بار سوکھ چکا تھا اور بار بار مجھے اس سبیل کی طرف جانا پڑتا تھا جہاں کھڑے نوجوان مسکرا کر مجھے رومال پانی سے بھگو کر دیتے اور کہتے کہ باجی آپ کا بہت شکریہ آپ یہاں آئیں اور لوگوں سے بات کی۔ ہر بار جانے پر ان کی جانب سے مجھے جوس، چائے کی پیش کش کی جاتی اور میں سوچتی کہ اس آفت میں بھی لوگ مہمان نوازی کا احساس لیے بیٹھے ہیں۔

ہماری اگلی منزل دادو کے ایک گاؤں میں لگے کیمپس تھے جہاں کئی خاندان آباد تھے۔ یہاں پہنچ کر ایسی حاملہ خواتین سے بات ہوئی جو اگلے ماہ زچگی کے مرحلے سے گزرنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ لیکن طبی امداد تو دور کی بات ان کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہے۔

باجی کیا آپ کے پاس پینے کا پانی ہے؟تیس سالہ کریمہ نے مجھ سے بہت رازدانہ انداز میں پوچھا۔ ہاں بالکل ہے۔ یہ سن کر اس کے چہرے پر چمک آگئی۔ مجھے پانی دے دیں میرے بیٹے نے کل کا پانی پیا ہوا ہے۔ اس جملے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ گاڑی میں سیلاب متاثرین کو دینے کے لیے پانی کے کئی کریٹس موجود تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ موجود رضاکار کا کہنا تھا کہ جہاں پہلے ہی ہجوم بے قابو ہو وہاں ایسی کوشش نہ کی جائے۔

مجھے لگا کہ اب کچھ بھی ہو اسی جگہ پر یہ دینا ضروری ہے کیوں کہ صرف کریمہ کا ہی نہیں کئی مائیں اور ان کے بچے پیاسے ہوں گے۔ گاڑی میں موجود بسکٹس کے ڈبے اور کئی درجن بوتلیں منٹو ں میں ختم ہوگئیں۔ آخری لمحے تک کئی ہاتھ خالی دکھائی دیے اور بچوں کی رونے کی آوازیں کانوں میں گونجتی رہیں۔کئی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ تو کئی ناکام رہ جانے والوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا وہ سیلاب نظر آیا جو کسی بھی وقت بند توڑ کر بہنے ہی والا تھا۔

دادو اور جوہی سے واپسی پر اپنے سامنے پانی کی بوتل رکھے میں سوچ رہی تھی کہ رپورٹنگ کے دوران گھونٹ گھونٹ پانی سے اپنی پیاس بجھانے کے دوران میری فکر یہ تھی کہ اس سفر میں کہیں کوئی واش روم کی سہولت نہیں تو پانی کم پیا جائے۔ مجھے صبح کا وہ ناشتہ یاد آیا جو میں نے سیر ہوکر کیا تھا تب ہی بھوک کا احساس نہ تھا۔ دوسری جانب یہ معصوم بچے اور عورتیں ہیں جنہیں یاد بھی نہیں کہ آخری بار انہیں پینے کا صاف پانی کب ملا ہوگا اور آگے کب کھانے کو آٹا یا چاول ملے گا اس انتظار کی امید بھی اب دم توڑ رہی تھی ۔