پاکستان میں کرونا وائرس کی شدت کے پیشِ نظر حکومت نے رواں ہفتے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ والدین اور نجی اسکول انتظامیہ کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برس فروری سے لے کر اب تک کئی مواقع پر کیسز بڑھنے کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم میں حرج کے علاوہ تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔
بعض حلقے یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ آخر سب سے پہلے تعلیمی ادارے ہی کیوں بند کیے جاتے ہیں جب کہ دیگر کئی سرگرمیاں بحال رکھتی ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے قائم ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق بچوں کے کرونا وائرس سے بیمار ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اس وائرس کی تیزی سے منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مرکزی عہدیدار اور 'این سی او سی' کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اِس وقت پاکستان بھر کے اسپتالوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اسپتالوں میں جگہ بھی کم پڑ رہی ہے۔
اُن کے بقول اسی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کیا گیا کیوں کہ بچے کرونا کے کیریئر بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اِن دِنوں کرونا وائرس کی چوتھی لہر جاری ہے جب کہ کرونا کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے باعث کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
تعلیمی ادارے ہی بند کیوں؟
این سی او سی کے رکن کے مطابق عام طور پر یہ وائرس بڑوں سے لوگوں میں پھیلتا ہے، لیکن موجودہ صورتِ حال میں بچوں سے اِس وائرس کے پھیلاؤ کے بھی شواہد ملے ہیں۔
اُن کے بقول "بچے کرونا کو بطور کیریئر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور دوسروں کو اور خاص طور پر بزرگوں تک پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔"
کیا تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع بھی ہو سکتی ہے؟
این سی او سی میں محکمۂ صحت کے نمائندے کے مطابق گزشتہ اجلاس میں تو 11 ستمبر 2021 تک تمام تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن صورتِ حال کے پیشِ نظر اس میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
اُن کے مطابق 'این سی او سی' تمام صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کو کھولنے سے متعلق فیصلہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلے صوبۂ سندھ کے شہر کراچی میں کرونا وائرس کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد صورتِ حال خاصی قابو میں آ گئی تھی جب کہ وہ شہر جہاں تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے وہاں کرونا وائرس کی شرح بڑھ رہی تھی۔
اُن کے بقول تعلیمی اداروں کی بندش سے اب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کیسز میں کچھ کمی آئی ہے۔
اسکولوں، کالجوں اور جامعات کی بندش سے متعلق والدین وقتاً فوقتاً اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ والدین کے مطابق بار بار تعلیمی اداروں کی بندش سے بچوں کی تعلیم میں حرج ہوتا ہے۔
این سی او سی کے عہدیدار کے مطابق این سی او سی کے اجلاس میں والدین کے تحفظات کو دیکھا جاتا ہے، لیکن بچوں کی صحت پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
عہدیدار نے بتایا کہ ایک طرف تعلیم ہے تو دوسری طرف زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ بہت مشکل اور مجبوری کے تحت کیا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے سی ای او پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم سمجھتے ہیں کہ اسکولوں اور دیگر تعلیی اداروں کو اِس لیے بند کیا جاتا ہے کہ وہاں سے کرونا وائرس پھیلنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک ایک کلاس میں کسی بھی شہر کے مختلف علاقوں سے بچے آ کر ایک ہی چھت کے نیچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم نے کہا کہ اسکولوں کو یا دیگر شعبوں کو بند کرنے کے لیے اُس شہر یا جگہ میں کرونا وائرس کے پھیلاو کی شرح، روزانہ کی بنیاد پر اضافہ، اسپتالوں کی صورتِ حال سمیت دیگر پہلوؤں کو مدِ نظر رکھ کر کسی بھی شعبے کو بند کیا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں کے خدشات
پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کی غیر سرکاری تنظیم آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف مرزا نے کہا کہ کرونا جیسی بیماری سے لڑنے کے لیے پورے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت تھی اور یہ شعور تعلیمی اداروں کے توسط سے آسانی سے پھیلایا جا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
اُن کے بقول تعلیمی اداروں کی بار بار بندش سے طلبہ کا اُساتذہ سے رابطہ اور اساتذہ کا والدین سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسکولز میں کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔
کاشف مرزا کے مطابق کم و بیش پانچ کروڑ بچے نجی تعلیمی ادارں میں زیرِ تعلیم ہیں جو اس وقت گھروں میں بیٹھے ہیں۔
کاشف مرزا کے مطابق پاکستان میں آن لائن تعلیم تک رسائی صرف دو فی صد طلبہ کو ہی مل سکی ہے، یعنی چار کروڑ 90 لاکھ بچوں کو آن لائن تعلیم نہیں مل سکی۔
کاشف مرزا نے کہا کہ پاکستان کی یہ بدقسمتی یہ ہے کہ این سی او سی نے کرونا وائرس کے باعث تعلیمی ادارں کو بند کرنے کے لیے کبھی مشاورت نہیں کی، بلکہ ایسے فیصلے متعلقہ وزارتیں اور بیورو کریسی کرتی رہی ہیں۔