ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ تہران 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی شرائط پر واپس آنے کے لیے تیار ہے لیکن صرف اس صورت میں جب معاہدے میں شامل دیگر ممالک اپنے وعدے پورے کریں۔
پیر کو یورپی یونین کے خارجی امور کے نئے سربراہ جوزف بورل سے تہران میں ملاقات کے بعد ایرانی صدر کے دفتر سے یہ بیان جاری کیا گیا ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ارنا' نے صدر حسن روحانی کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی اداروں سے اس وقت تک تعاون جاری رکھے گا جب تک انہیں "کسی نئی صورتِ حال کا سامنا نہیں ہوتا۔"
یہ واضح نہیں کیا گیا کہ صدر روحانی کس قسم کی صورتِ حال سے متعلق بات کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ ایران کی قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ یورینیم کی محدود افزودگی سے متعلق شرائط ترک کر دے گا۔ لیکن اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے 'آئی اے ای اے' سے تعاون جاری رکھے گا۔
ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان 2015 میں ایک جوہری معاہدہ طے پایا تھا جس میں تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اٹھا لی گئیں تھیں۔
امریکہ نے سال 2018 میں اس جوہری معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد سے ایران جوہری مادّوں کی افزودگی میں اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے جس کے باعث امریکہ نے ایران پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
یورپی یونین کے خارجی امور کے سربراہ جوزف بورل کا دورہ تہران 'ڈسپیوٹ سیٹلمنٹ مکینزم' کا حصہ ہے۔ یہ 2015 کے معاہدے میں شامل ایک شق ہے جس کے تحت ایران سے مذاکرات کے بعد اس معاہدے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
'ڈسپیوٹ مکینزم' کے تحت ایک جوائنٹ کمیشن بنایا جائے گا جس کے اراکین میں ایران، روس، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہوں گے جو تنازع کے حل کی کوششیں کریں گے۔
اگر ایران سے معاملات طے پا جاتے ہیں تو اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں نہیں لے جایا جائے گا۔ خیال رہے کہ سلامتی کونسل میں جانے کے بعد یہ معاہدہ ختم بھی ہو سکتا ہے۔