دریائے راوی پر 'روڈا' منصوبہ: حکام مزید زمین کیوں حاصل کر رہے ہیں؟

فائل فوٹو

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا)منصوبے کی تکمیل کے لیے لوگوں سے اُن کی ملکیتی زمینیں حاصل کر رہی ہے جب کہ اتھارٹی پر الزام ہے کہ وہ کسانوں کی کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے کے بعد ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے۔

حاجی یونس اُن متاثرہ کسانوں میں سے ایک ہیں جو تقریباً ڈیڑھ سو ایکٹر زمین کے مالک ہیں اور روڈا نے ان کی زمین حاصل کی ہے۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ حکام اُن کی 97 ایکٹر زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں اور زبردستی اُن کی زمینوں کے مالکانہ حقوق محکمے کے نام منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ معاملے کو مقامی عدالت میں لے گئے ہیں جہاں ان کے حق میں فیصلہ آیا ہے لیکن اس کے باوجود اُن کی زمین واپس نہیں کی جا رہی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حاجی یونس نے بتایا کہ روڈا حکام اُن سے زمینیں لے نہیں رہے بلکہ زبردستی قبضہ کر رہے ہیں۔ بدھ کو بھی زمینیوں کے حصول کے لیے کی جانے والی کارروائی میں کسانوں کی دو دو فٹ کھڑی گندم کی فصل ہل چلا کر تباہ کر دی گئی تھی۔

دریائے راوی کے کنارے بنائی جانے والی ہاؤسنگ سوسائٹی ' راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ' پنجاب حکومت کا منصوبہ ہے جس کا سنگِ بنیاد سات اگست 2020 کو رکھا گیا تھا۔ اس منصوبے کا کل رقبہ ایک ایکٹر سے زائد پر مشتمل ہے۔

اس منصوبے کے تحت 12 صنعتی زونز اور رہائشی یونٹس بنائے جائیں گے جس کے لیے ابتدائی طور پر 44 ہزار ایکڑاراضی کی نشان دہی کی گئی ہے۔

SEE ALSO: راوی ریور اربن پروجیکٹ؛ ’کسی کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں شہر بسا رہے ہیں‘

ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اِس منصوبے کو گیم چینجر قرار دیتی رہی ہے۔ جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو اس وقت حکومت پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ اسے تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔

عبدالغنی بھی اس منصوبے کے متاثر ہیں جن کی زمین روڈا حکام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ روڈا حکام زمین کے حصول کے لیے جو طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں وہ صریحاً عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالغنی نے کہا کہ اگر روڈا کو کسی بھی مقصد کے لیے زمین چاہیے تو وہ کسانوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرے لیکن خاندانی زمینوں کو زبردستی حاصل کیا جا رہا ہے۔

عبدالغنی کے بقول، ان کی زمینوں کی مارکیٹ ویلیو 35 سے 50 لاکھ روپے فی ایکڑ ہے لیکن حکام انہیں آٹھ سے بارہ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے ادائیگی کر رہے ہیں جو کسی صورت قبول نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکام اُن کی قابلِ کاشت زمینوں کو بنجر قرار دے کر زمینوں کے دام ڈی سی ریٹ کے حساب سے لگا رہے ہیں۔

SEE ALSO: سپریم کورٹ: راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل، کام جاری رکھنے کی اجازت

ڈی سی ریٹ سے مراد کسی بھی ضلع میں ڈپٹی کمشنر زمین کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ جس کے تحت زمینوں کو خریدا اور بیچا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 25 جنوری کو اپنے ایک حکم میں روڈا منصوبے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم پنجاب حکومت نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 31 جنوری کو سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو منصوبہ جاری رکھنے کی مشروط اجازت دے دی تھی۔

روڈا حکام کی تمام الزامات کی تردید

روڈا حکام نے کسانوں کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ منصوبے کے لیے زمینیں طے شدہ قواعد کے تحت پیسے دے کر حاصل کی جاتی ہیں۔

روڈا حکام زمینوں کے حصول کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار کو 'پیکج' کا نام دیتے ہیں۔

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر کمرشل اینڈ مارکیٹنگ محمد کاشف کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی قابلِ کاشت زمین حاصل کی جا رہی اُنہیں 15 فی صد اُن کی فصل کا دیا جاتا ہے۔ اِسی طرح جن لوگوں کی زمین دریائے راوی کے ساتھ ہے اُنہیں ڈی سی ریٹ کے تحت پیسے دیے جا رہے ہیں جب کہ قابلِ کاشت زمین پر فصل کے پیسے اور سات مرلے کی ایک فائل بھی دی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جن کی زمین دریا کے اندر آتی ہے تو سات مرلے کی فائل چار سے پانچ لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے 35 لاکھ روپے کی بنتی ہے۔ اِسی طرح اُنہیں اُن کی زمین کا ڈی سی ریٹ ڈھائی سے سات لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے دیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح اُنہیں فصل کے پیسےبھی دیے جاتے ہیں جو اوسطاً ایک کسان کا 40 سے 50 لاکھ روپے بن جاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

دریائے راوی کے کنارے آباد گاؤں کی زمین دریا برد ہونے لگی

محمد کاشف کے مطابق جن کسانوں کی زمین دریا کی حدود میں نہیں آتی اور وہ قابلِ کاشت ہے تو انہیں 15 مرلے کی فائل ملتی ہے۔ جس کی قیمت 15 سے 17 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ اِسی طرح اُنہیں اُن کی زمینوں کا ڈی سی ریٹ 17 سے 23 لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔

یاد رہے اتھارٹی کی جانب سے زمینوں کے حصول اور طریقہ کار کے خلاف کسان اور متاثرہ خاندان ماضی میں بھی احتجاج کر کے اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ روڈا اتھارٹی صرف اس زمین پر کام کرسکتی ہے جس کے مالکان کو معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے لیکن کسانوں کا الزام ہے کہ روڈا حکام معاوضہ ادا کیے بغیر مزید زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے۔

ایک لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلے اس منصوبے پر ماہرین ماحولیات اور شہری ترقی کے ماہرین کے اعتراضات تو سامنے آتے رہے ہیں لیکن مقامی کسانوں نے شکوہ کیا ہے کہ منصوبےکا ڈیزائن اس زمین کے مالکان کونقصان پہنچاتا ہے جنہیں اس کا بنیادی فائدہ ہونا چاہیے تھا۔

روڈا کے ڈائریکٹر کمرشل اینڈ مارکیٹنگ محمد کاشف نے دعویٰ کیا ہے کہ محکمہ براہِ راست کبھی بھی خود زمینیں حاصل نہیں کرتا بلکہ محکمہ بورڈ آف ریونیو کی مدد سے زمینیں حاصل کی جاتی ہیں۔

ان کے بقول روڈا اتھارٹی نے بورڈ آف ریونیو کو زمینیوں کے حصول کے لیے پیشگی تمام ادائیگیاں کر دی ہیں۔