قازقستان میں احتجاج، حکومت کی مدد کے لیے روس اور دیگر ممالک کے فوجی دستوں کی آمد

ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی گئی ہے جس کے بعد احتجاج، مظاہروں اور حکومت کے اقدامات کے حوالے سے مکمل تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔

قازقستان میں حکومت مخالف احتجاج میں شدت آنے اور فسادات کے بعد مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے روس سمیت دیگر ممالک کے فوجی دستے بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے اہم ترین شہر الماتی میں فسادات میں ملوث کئی درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ فسادات کے دوران کم از کم 13 سیکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔​

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فسادات کے دوران صدر کی رہائش گاہ اور میئر کے دفتر کو بھی آگ لگا دی گئی۔

شہر کے مرکز میں جس مقام پر مظاہرین کی بڑی تعداد موجود تھی وہاں مسلح سیکیورٹی اہلکار داخل ہوئے۔ اس دوران وہاں سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ بعد ازاں جمعرات کو شہر کے اسی مرکزی چوراہے پر 200 سے 300 مظاہرین جمع تھے جب کہ سیکیورٹی اہلکار وہاں موجود نہیں تھے۔

ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی گئی ہے جس کے بعد احتجاج، مظاہروں اور حکومت کے اقدامات کے حوالے سے مکمل تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔

اس احتجاج کا آغاز تو پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے مسئلے سے ہوا تھا بعد ازاں یہ احتجاج ملک میں تین دہائیوں سے حکمران نور سلطان نذر بائیوف اور ان کے جان نشین صدر قاسم جومارت توکائیوف کی حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل ہو گیا۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1991 سے 2019 تک ملک کے صدر نور سلطان نذر بائیوف تھے اس دوران ان کا اقتدار پر انتہائی مضبوط کنٹرول رہا۔ ان کے بعد قاسم جومارت توکایئوف ملک کے صدر بنے جو نور سلطان نذر بائیوف کے ماتحت تصور کیے جاتے ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق نذر بائیوف ملک میں حکمرانی سے خود کو بظاہر دور کر چکے ہیں البتہ وہ اور ان کے خاندان کے افراد اب بھی ملک کے اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ اور سیکیورٹی اداروں کی نگرانی کا اہم ترین عہدہ بھی ان کے پاس ہے۔ جب سے احتجاج شروع ہوا ہے اس کے بعد سے نور سلطان نذر بائیوف منظر عام سے غائب ہیں۔

قازقستان کے صدر نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں بدامنی کے ذمہ دار بیرون ملک تربیت حاصل کرکے آنے والے دہشت گرد ہیں وہی عمارتوں پر قابض ہوئے اور اسلحہ قبضے میں لے لیا۔

انہوں نے اس کو ملک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قازقستان کے عوام پر حملہ ہے۔ شہریوں نے مجھے ان کی جلد مدد کے لیے کہا ہے۔

قازقستان ماسکو کے ماتحت فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہے۔ ملک کے موجودہ صدر قاسم جومارت توکائیوف نے حالیہ احتجاج پر قازقستان کے اتحادی ممالک کے اتحاد سے مدد کی درخواست کی تھی جس کے بعد روس نے پیراٹروپرز اور دیگر دستوں کو قازقستان بھیجا ہے۔

روس کی قیادت میں قائم اتحاد کے سیکریٹریٹ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ قازقستان بھیجے گئے دستوں میں روس، بیلاروس، آرمینیا، تاجکستان، اورکرغزستان کے فوجی اہلکار شامل ہیں۔

فوجی اتحاد کے سیکریٹریٹ نے یہ واضح نہیں کیا کہ مجموعی طور پر کتنے فوجی دستے اور اہلکار قازقستان بھیجے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی اہلکار سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں جب کہ کئی مقامات سے احتجاج کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں البتہ ان ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ملک میں احتجاج کا آغاز رواں برس کے آغاز کے ساتھ اس وقت ہوا جب حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ بدھ کو مظاہروں اور احتجاج میں شدت آئی اور مظاہرین کئی سرکاری عمارتوں میں گھس گئے جب کہ کئی مقامات پر سرکاری املاک کو آگ لگا دی گئی۔

صدر قاسم جومارت توکائیوف نے احتجاج کرنے والوں کو غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد قرار دیا ہے البتہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔

ملک کے سرکاری ٹی وی پر ایک غیر مصدقہ ویڈیو بھی چلائی گئی جس میں دکھایا گیا کہ ایک گلی میں ہتھیاروں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور لوگ آ رہے ہیں اور اس سے ہتھیار اٹھا اٹھا کے لے کر جا رہے ہیں۔

ملک کے سرکاری ٹی وی اور سرکاری بینک نے ملازمین کے تحفظ کے پیشِ نظر کام معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

قازقستان کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر اب بھی زیرِ علاج ہیں۔

قازقستان کے پڑوسی ملک چین نے حالیہ احتجاج کو ملک کا اندرونی مسئلہ قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ جلد حالات بہتر ہو جائیں گے۔

قبل ازیں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ احتجاج کے اظہار کے لیے پر امن طریقۂ کار اختیار کریں جب کہ حکام کو بھی تحمل سے کام لینا چاہیے۔

قازقستان میں امریکہ کے سفارت خانے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اس لیے سیکیورٹی کے سخت اقدامات کا نفاذ متوقع ہے۔

امریکی حکومت کے اہل کاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ان علاقوں میں جانے سے اجتناب برتیں جہاں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمعرات سے الماتی کا امریکی قونصل خانہ عام لوگوں کے لیے بند کر دیا جائے گا جب کہ دفتر کے اہل کار گھر سے کام کریں گے۔

نور سلطان میں سفارت خانہ اور الماتی کے قونصل خانے سے امریکی شہریوں کے لیے فراہم کردہ تمام خدمات اور ویزے کے تمام انٹرویوز بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔