’’وہ مجھے قتل کرنا چاہتی تھی۔ وہ اچانک آکٹوپس بن گئی تھی۔ اس کے چھ ہاتھ نکل آئے تھے۔ وہ مجھے مارنا چاہتی تھی۔ اصل میں سارہ ایک ٹرمینیٹر تھی، جو مجھے مارنے کے لیے ہی آئی تھی۔‘‘
یہ وہ بیان ہے، جو اس وقت پولیس حراست میں موجود شاہ نواز امیر پولیس کو دے رہے ہیں، جنہوں نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں فارم ہاؤس میں اپنی 37 سالہ بیوی سارہ انعام کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا۔
ملزم شاہ نواز امیر اور سارہ کئی سال پہلے کلاس فیلو تھے اور اکٹھے پڑھتے تھے ۔ کچھ ماہ قبل ان کا سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔
اس کیس میں عدالت نے ملزم کے والد، سینئرصحافی ایاز امیر کا نام عدم ثبوت کی بنا پر مقدمے سےخارج کر دیا ہے، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
اس کیس سے منسلک پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرمختلف حقائق کے حوالے سے وائس آف امریکہ کو آگاہ کیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم شاہ نواز امیر بالکل نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے انداز میں خود کو پیش کر رہا ہے۔ کبھی وہ خود کو مخبوط الحواس ظاہر کرتا ہے اور کبھی مکمل پاگل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اکثر بات چیت میں اس کا انداز کسی فلسفی کی طرح ہوتا ہے۔
حکام کے مطابق اس کیس میں ملزم نے سارہ انعام کو قتل کرنے کے بعد اس کی تصاویر بنائیں اور اپنے والد ایاز امیر کو پہنچائیں۔ اس صورتِ حال میں ایاز امیر نے پولیس کو بتایا کہ جب اس واقعےکا مجھے پتا چلا، تو میرے ذہن میں سب سے پہلا خیال نورمقدم کا آیا تھا، جس کے بعد میں نےاسلام آباد پولیس کے آئی جی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہونے پر اس علاقے کے ایس پی سے رابطہ ہوا اور انہیں یہ تفصیل بتائی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جب وہ اس فارم ہاؤس پر پہنچی تو ملزم نے خود کو ایک کمرہ میں بند کر لیا تھا، جس کے بعد پولیس حکام نے اسے باتوں میں لگا کر باہر آنے کا کہا اور کچھ دیر کے بعد اس نے خود دروازہ کھول دیا، جہاں اسے حراست میں لے لیا گیا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ نے مرنے سے قبل مزاحمت بھی کی اور ملزم کے ہاتھوں کو پکڑنے کی کوشش کی، جس دوران اس کے ناخنوں سے لگنے والی کھرونچیں اب بھی ملزم کے بازو پر موجود ہیں جب کہ جم میں استعمال ہونے والے ڈمبل پر بھی ملزم کے خون کے نشان پائے گئے ہیں اور مقتولہ کے خون اور بال بھی ڈمبل پر موجود تھے۔
SEE ALSO: اسلام آباد: صحافی ایاز امیر کا بیٹا اہلیہ کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتارقتل ہوا کیوں؟
اس بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم شاہ نواز امیر قتل کا اعتراف تو کر رہا ہے لیکن وجوہات بتاتے ہوئے مختلف مؤقف اختیار کر تا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے بعض مواقع پر بتایا کہ مقتولہ مافوق الفطرت تھی اور اس نے آکٹوپس کا روپ دھار لیا تھا اور وہ چھ ہاتھوں سے اس کا گلا دبانا چاہ رہی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ ان کے والد ایاز امیر پر بھی کچھ عرصہ قبل حملہ ہوا تھا، لہذا ان کو شک تھا کہ سارہ بھی انہیں لوگوں میں سے ہے، جو ان کے والد کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، اس کے مطابق ملزم کو کوئی ذہنی عارضہ لاحق نہیں ہے اور وہ صرف پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے بیان دے رہا ہے۔
قتل کی وجوہات کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دونوں کے درمیان جھگڑا رقم کی لین دین کی وجہ سے ہوا۔ سارہ انعام کینیڈین نژاد تھیں اور ابوظہبی میں ایک سرکاری ادارے میں کام کر رہی تھیں، جہاں ان کی تنخواہ پاکستانی روپوں میں 30 لاکھ کے قریب تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس کے مطابق ابتدائی معلومات میں سامنے آیا ہے کہ مقتولہ نے کچھ عرصہ قبل اسے مرسڈیز گاڑی خریدنے کے لیے رقم منتقل کی تھی، جس کے بعد ملزم نے اپنے نام سے گاڑی خریدی۔ اس کے علاوہ بنی گالہ کے علاقے میں ایک پلاٹ کے خریداری کے لیے رقم بھی بھجوائی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ رقم واپس چلی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک فلیٹ کے لیے 10 لاکھ روپے کی رقم بھی مقتولہ کی طرف سے ملزم کو ارسال کی گئی تھی۔
SEE ALSO: کیا نور مقدم کو انصاف دینے سے نظام قانون اور انصاف سرخرو ہوگئے؟پولیس کا کہنا ہے کہ جو شواہد سامنے آ رہے ہیں اس کے مطابق ان کے درمیان ہونے والی آن لائن گفتگو میں بھی رقم کے بارے میں تکرار ہوئی تھی جب کہ ان کی تین ماہ قبل ہونے والی شادی کے بعد دو سے تین مرتبہ سارہ پاکستان آئی اور آخری مرتبہ جب وہ پاکستان پہنچی تو ملزم شاہ نواز امیر اپنی بیوی کو لینے ایئرپورٹ بھی نہیں گئے۔
ملزم کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟
ملزم کے ذرائع آمدن کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ جو شواہد سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق ملزم او لیول بھی مکمل نہیں کرسکا تھا البتہ ہائی سوسائٹی اور ایلیٹ اسکولز میں پڑھنے کی وجہ سے رکھ رکھاؤ جانتا تھا اور انگریزی روانی سے بولتا ہے۔ اس کے علاوہ ملزم شراب اور دیگر منشیات کا بھی عادی ہے۔ اس کے آمدن کے ذرائع صرف چکوال میں کچھ دکانیں تھیں، جن سے ساڑھے تین لاکھ روپے ماہانہ کرایہ آتا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے اخراجات اور اس کی آمدن میں بہت زیادہ فرق تھا اور جو معلومات سامنے آ رہی ہیں، اس میں ملزم نے مقتولہ کے پیسے غائب کیے، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا۔
پولیس کو بعض ایسے شواہد بھی ملے ہیں، جن میں مقتولہ نے بعض دوستوں سے بھی ان حالات کا ذکر کیا، جن میں ملزم کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے لیکن اب تک وہ دوست سامنے نہیں آئے۔
ملزم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ سارہ سے شادی سے قبل وہ دو شادیاں کر چکا تھا اور پہلی شادی صرف چند دن اور دوسری شادی سات آٹھ ماہ قائم رہی ۔ اس کے بعد عرصہ دراز سے وہ اس فارم ہاؤس پر اکیلا رہ رہا تھا، جو اس کی والدہ کے نام پر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دونوں کے درمیان رابطہ کیسے ہوا؟
اس سوال پر کہ ان کا رابطہ کیسے ہوا؟ پولیس حکام نے بتایا کہ دونوں کے درمیان ٹنڈر نامی ایپ کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔ سارہ نے پروفیشنل لائف میں بہت کامیابی حاصل کی تھی اور اب وہ اپنی زندگی کو معمول کے ڈگر پر لانے کے لیے شادی کرنا چاہتی تھی اور اس ایپ کے ذریعے ان کا رابطہ ہوا، جس میں ملزم کی شاہانہ انداز میں تصاویر دیکھ کر وہ متاثر ہوئی۔ بعض تصاویر میں شاہ نواز امیر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہا ہے جب کہ اس کی سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ بھی تصاویر تھیں جس کی وجہ سے یہ شادی ہوئی۔
پولیس کو ملنے والی معلومات کے مطابق سارہ اور شاہ نواز امیر کا نکاح چکوال کے ایک گاؤں میں ہوا تھا اور ایاز امیر اس نکاح میں شریک نہیں تھے البتہ گاؤں کے افراد اس نکاح میں شریک تھے۔ مقتولہ نے اپنی شادی سے متعلق اہلِ خانہ کو نکاح ہونے کے بعد بتایا تھا جس کے بعد اب باقاعدہ رخصتی کے لیے تاریخ طے کرنے اور ہال بک کرانے کا سوچ رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آگیا۔
ایاز امیر کیس سے ڈسچارج
اسلام آباد پولیس کی طرف سے اس کیس میں ایاز امیر کو شریک ملزم بنایا گیا تھا تاہم اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عدم ثبوت پر ایاز امیر کو اس کیس سے خارج کر دیا ہے، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے عدالت سے ایاز امیر کے مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔سینئر سول جج عامر عزیز کی عدالت میں تفتیشی افسر نے بتایا کہ مرکزی ملزم شاہ نواز امیر کا ان سے رابطہ تھا۔
SEE ALSO: سینئر صحافی ایاز امیر پر نامعلوم افراد کا تشدد، وزیر اعظم اورصحافیوں کی مذمتعدالت نے پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ آپ کے پاس ایاز امیر کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟
جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ سارہ انعام کےقتل کے بعد مرکزی ملزم شاہ نواز امیر کا والد سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ سارہ انعام کے والدین کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔
ایاز امیر کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے۔ ایاز امیر کا بیٹے شاہ نواز امیر سے رابطہ واقعے کے بعد ہوا ہے۔ باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو جس جس سے رابطہ ہوا، پولیس ان کو ملزم بنا دے گی۔ ابھی تو اسلام آباد پولیس ثبوت جمع کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقتولہ کے والدین کا ایاز امیر کے خلاف کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ اسلا
پراسیکیوٹر نے کہا کہ واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا۔ فون کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے۔اس پر ایاز امیر کے وکیل نے کہا کہ جب ثبوت آ جائے تو پھر وارنٹ لے کر گرفتار کر لیں۔
ایاز امیرکے وکیل نے کہا کہ واقعے کے وقت ملزم ایاز امیر چکوال میں موجود تھے۔ انہوں نے واقعے کا پتا چلنے پر پولیس کو اطلاع دی۔
وکیل نےعدالت سے استدعا کی کہ 35 برس سے ایاز امیر کا فارم ہاؤس سے کوئی تعلق نہیں، انہیں مقدمے سے خارج کیا جائے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایاز امیر کو اس کیس سے خارج کر دیا، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب مقتولہ کے والد انعام الرحیم پاکستان پہنچ چکے ہیں، جہاں ان کا پولیس سے رابطہ ہوا ہے۔انہوں نے ابتدائی معلومات پولیس کو فراہم کر دی ہیں۔