سعودی عرب نے ایک ایسے موقع پر جب خلیجی ممالک برسوں کی تلخ تقسیم کے بعد دوبارہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، تاریخی پیش رفت میں بدھ کے روز ایران اور شام کے وفود کی میزبانی کی ۔
ایران کے سرکاری میڈیا کی جانب سے اس اطلاع کے صرف چند گھنٹے بعدکہ تہران کاایک وفد ریاض پہنچ گیا ہے، سعودی عرب نے شام کے وزیر خارجہ کی جدہ آمد کا اعلان کیا ۔
2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کی اور "شام کے بحران کے مکمل سیاسی حل کے لیے ضروری اقدامات" پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد "ایک قومی افہام و تفہیم کی تشکیل ،شام کو اس کے عرب حصے میں واپس لانا اور عرب دنیا میں اس کے فطری کردار کو دوبارہ شروع کرنا ہے"۔
دونوں سفارت کاروں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ قونصلر خدمات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، اورانہوں نے اپنے ممالک کے درمیان پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا۔
SEE ALSO: سعودی عرب اور شام میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے پیش رفتایک ایسے وقت میں جب ایران کے صدر کی سعودی عرب میں جلد آمد متوقع ہے، اور سعودی اس ہفتے یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ وہاں لڑائی ختم کرنے کی کوشش میں مذاکرات کر رہے ہیں، مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران شورش کے شکار خطے کے لیے امیدوں نے جنم لیا ہے۔
ریاض میں مقیم ایک عرب سفارت کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ایرانی اور شامی ایک ہی دن سعودی عرب میں ہیں۔ یہ مکمل طور پر "حیرت انگیز "ہے اور چند ماہ قبل ایسا سوچنا بھی ناممکن تھا۔"
جمعہ کو نو عرب ممالک کے نمائندے جدہ میں ملاقات کریں گے تاکہ شام کے صدر بشار الاسد کے طویل عرصے سےتنہائی کے شکار ملک کو اگلے ماہ ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اجازت دی جاسکے۔
SEE ALSO: یمن تنازع: سعودی اور عمانی وفود کی حوثیوں سے امن مذاکرات کے لیے صنعا آمدسعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس سے پہلے شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کریں گے تاکہ "شام کے بحران کے کسی ایسےسیاسی حل تک پہنچنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا جا سکے جو شام کے اتحاد، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھے"۔
سفارتی ہلچل
ان سفارتی سرگرمیوں سے قبل تہران نے ایرانی وفد کی ریاض آمد کا اعلان کیا تھا تاکہ تعلقات میں تناؤ کے سات سال بعد سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
یہ دورہ ایک سعودی وفد کے ایران کے دارالحکومت کا اسی طرح کا دورہ کرنے اور چین میں دونوں حکومتوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان تاریخی ملاقات کے بعد ہوا ہے جس نے شورش زدہ خطے میں استحکام لانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
SEE ALSO: سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کی بیجنگ میں ملاقاتایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ "ایرانی وفد ریاض میں سفارت خانہ اور جدہ میں قونصلیٹ جنرل دوبارہ کھولنے کے لیے اقدامات کےساتھ ساتھ (جدہ میں قائم ) اسلامی تعاون کی تنظیم میں ایران کے مستقل نمائندے کی سرگرمیوں کےدوبارہ آغازکے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔"
تہران کے ایک بیان کے مطابق ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ محمود احمدی نژاد کے 2012 میں مکہ میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت کے بعد کسی ایرانی صدر کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔
سفارتی سرگرمیوں میں یہ ہلچل پچھلے مہینے ، چینی ثالثی میں ہونے والے اس تاریخی اعلان کے بعد سشروع ہوئی تھی کہ ایران اور سعودی عرب، جو مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتے ہیں، تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کام کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا سعودی عرب اب اندرون ملک منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد اپنی توانائی پر منحصر معیشت کو متنوع بنانا ہے۔
واشنگٹن نے سفارتی کو ششوں میں چین کے کردار کے باوجود جسے وہ اپنے سب سے بڑے عالمی چیلنجر کے طور پر دیکھتا ہے،سعودیوں اور امریکہ کے مخالف ایران کے درمیان تعلقات کا محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔