چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس کے اختیارات محدود کرنےسمیت دیگر عدالتی إصلاحات کا بل سینیٹ سے بھی منظور کر لیا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے اس کی مخالفت کی۔
وفاقی وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں جب' سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل' پیش کیا تو تحریکِ انصاف نے اس پر احتجاج کیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق تحریکِ انصاف کے ارکان بل کو مسترد کرنے کے نعرے لگا تے رہے۔
تحریکِ انصاف کی تجویز تھی کہ بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے جہاں اس کا جائزہ لیا جائے البتہ اس کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر اس پر ووٹ کا فیصلہ کیا گیا۔
بل پر رائے شماری پر اس کے حق میں 60 ووٹ آئے جب کہ اس کی مخالفت 19 سینٹرز نے کی۔ مخالفت کرنے والوں میں تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے سینیٹرز شامل تھے۔
یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے اب سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد یہ صدر کے پاس بھیجا جائے گا جن کے دستخط ہونے کے بعد یہ لاگو ہو جائے گا۔
قبل ازیں جمعرات کو بل پیش کرنے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کے ارکان کو آگاہ کیا کہ قوانین میں رد و بدل کی گنجائش رکھنی پڑتی ہے تاکہ عصرِ حاضر کے مطابق اس میں ترمیم ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں وہ دور بھی آیا جب ایسے معاملات پر سوموٹو لیے گئے جن پر سوالات اٹھے کہ یہ اس زمرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ از خود نوٹسز میں انتظامیہ کے افسران کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بار کونسلز کے ساتھ ساتھ ایوان سے یہ آواز اٹھی کہ قانون سازی کی جائے تاکہ یہ معاملہ حل ہوجائے۔ عدلیہ سے بھی اب یہ آوازیں سامنے آئیں۔
وفاقی وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ کیسز کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کے لیے ایک فرد کے پاس اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے تمام 17 جج برابر ہیں۔ اس لیے کیسز تفویض کرنے اور بینچوں کی تشکیل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سینئر ترین تین جج کریں گے۔
از خود نوٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی تین سیئنر ججوں کی کمیٹی ہی سوموٹو نوٹس لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کرے گی اور اس کیس کو کم از کم تین جج سنیں گے۔
وزیرِ قانون کے مطابق اسی طرح سوموٹو پر اپیل کا حق بھی ہوگا اور ایک ماہ میں اس پر اپیل دائر ہو سکے گی جب کہ ایسے معاملات جن پر سوموٹو لیا گیا ہے اور ان پر فیصلہ آ چکا ہے اور وہ معاملات اب بھی زندہ ہیں تو ان پر ایک بار اپیل کا حق دیا جا رہا ہے۔
اس نئی قانون سازی پر ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی معاملے میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہو تو کم از کم پانچ رکنی بینچ اس کو سنے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں آخری بار فل کورٹ 2019 میں ہوئی ہے جو کہ عدالت کے قواعد بنا سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جس وقت اعظم نذیر تارڑ ایوان میں بل پیش کر رہے تھے اس وقت پاکستان بار کونسل سمیت دیگروکلا تنظیموں کے نمائندے بھی ایوان کی کارروائی دیکھنے کے لیے موجود تھے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی' سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل' بدھ کو کثرتِ رائے سے منظور کر چکی ہے۔ وفاقی وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے منگل کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسی روز ایوان میں یہ بل پیش کیا تھا جسے بعض ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران رُکن اسمبلی محسن داوڑ کی مجوزہ ترمیم کو بھی بل میں شامل کر لیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ نے پہلے جتنے بھی ازخود نوٹس لیے تھے ان کو بھی بل کی منظوری کے ایک ماہ کے اندر اپیل کا حق ہوگا۔
اپوزیشن کا ردِ عمل
سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اور تحریکِ انصاف کے سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹھانی ہوئی ہے کہ عدلیہ کو متنازع کرنا ہے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا گیا کہ یہ پہلے بھی عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اب بھی اس قانون کے تحت یہی کیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: عدالتی اصلاحات پر قانون سازی؛ کیا حکومت اور عدلیہ کے ٹکراؤ کا اندیشہ ہے؟ان کا کہنا تھا کہ اس قانون میں ایک شق کو خفیہ رکھا گیا تھا اور آخر میں اس کو سامنے لایا گیا کہ پہلے سوموٹو کے تحت ہونے والے فیصلے پر ایک بار اپیل کا حق دیا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ اپنے کیسز ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بل کو بحث کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟
بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔
اس کمیٹی میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینے کا اختیار ہے۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رکنی بینچ تشکیل دے گی۔ آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججز کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
SEE ALSO: چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کا بل قومی اسمبلی سے منظوربل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔