پاکستان میں حکومت کی طرف سے پارلیمان میں اہم قانون سازی جاری ہے اور عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور کیا جا چکا ہے۔ بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہو گی۔
ان ترامیم کے بعد عدلیہ اور حکومت میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات اور تناؤکا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد جج خود طے کرتے ہیں البتہ ان کو حاصل اختیارات آئین میں واضح ہیں۔
اس حوالےسے سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) شائق عثمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ قواعد کی تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہی حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کی اختیارات آئین میں واضح ہیں جنہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کے اختیار پر انہوں نے کہا کہ اس وقت سو موٹو لینے کا اختیار کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ اس اختیار کو کم کیا جائے۔ بنیادی طور پر آئین کا آرٹیکل 184(تھری) اس مقصد کے لیے تھا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو سپریم کورٹ اس میں اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نوٹس لے سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپیلٹ کورٹ ہے اور خود سے کچھ نہیں کرسکتی لیکن اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو سو موٹو کا اختیار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چوہدری افتخار کے دور میں سو موٹو کا بے تحاشا استعمال کیا گیا اور جو بھی معاملہ سامنے آتا تھا اس پر از خود نوٹس لے لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ روایت بن گئی ہے۔ درحقیقت یہ ایگزیگٹو یا حکومت کے اختیارات میں مداخلت ہے لیکن چوہدری افتخار اور ان کے بعد آنے والے چیف جسٹسز اس کا بہت زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں۔
جسٹس (ر)شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اب حکومت سمجھ رہی ہے کہ اس کے اختیارات پر قدغن لگانے کے لیے ایسے نوٹس لیے جا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن کی جماعت تحریکِ انصاف کو سپورٹ کرنے کے لیے ایسے نوٹس لیے جا رہے ہیں لہٰذا اب حکومت بھی اس پر قانون سازی کر رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم چل نہیں سکیں گی کیوں کہ حکومت سپریم کورٹ کے پروسیجرز کو تبدیل کرنا چاہ رہی ہے جو ممکن نہیں ہے۔ اگر اختیارات تبدیل کرنے ہیں تو اس کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت درکار ہوگی اور یہ اکثریت حکومت کے پاس نہیں ہے۔
جسٹس (ر)شائق عثمانی کے مطابق اس کا حل صرف یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھیں اور انتخابات سمیت تمام حل طلب معاملات کو مل بیٹھ کر حل کریں لیکن بدقسمتی سے موجودہ سیاست دان سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اعلیٰ عدالت کے ججوں میں تقسیم کے حوالے سے جسٹس (ر) شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں ججز کی مختلف آرا ہو سکتی ہیں اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اب موجودہ حالات میں چیف جسٹس کے پاس اختیار ہے کہ وہ بینچ کی تشکیل خود کرتے ہیں اور مسلسل ایک ہی قسم کے بینچ سامنے آنے سے مشکلات میں اضافہ ہوا ۔ اس مسئلے کو بھی سپریم کورٹ کے جج آپس میں بیٹھ کر قواعد کی تبدیلی کے ذریعے درست کر سکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی پر سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ اس قانون سازی کا سیاست سے کوئی تعلق تو نہیں ہے البتہ موجودہ حالات میں اس قانون سازی کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ اس قانون کا تعلق صرف عدالت کو چلانے سے متعلق ہے۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ کئی برس سے سپریم کورٹ کے قواعد قانون سازی کے تحت نہ بننے کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور بار کونسلز متعدد بار اس بارے میں آواز اٹھا چکی ہیں۔ ماضی میں کبھی ان پر کام نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کو قواعد کے ذریعے نہیں قانون سازی کے ذریعے چلانا چاہیے۔ عدالتوں کے اندر بھی ایک عرصے سے یہ بات زیرِ بحث رہی ہے کہ قواعد کو تبدیل کیا جائے اور قانون سازی کے ذریعے معاملات چلائے جائیں۔ مقدمات کے لیے کسی بھی بینچ کا بننا اور کسی کیس کا ججز کے پاس جانا قانون سازی کے ذریعے ہونا چاہیے۔
سابق اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ اس قانون سازی سے عدلیہ کے کمزور ہونے کا تاثر غلط ہے۔ آج یہ معاملہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہوگیا ہے کیوں کہ عدالت کے اندر سے اس بارے میں آواز اٹھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون سے پارلیمان مضبوط تو ہوگی لیکن اس سے اصل میں ریاست مضبوط ہوگی۔ بہتر ہے کہ پارلیمان اس بارے میں بحث کرے اور اس معاملے میں اچھی قانون سازی کرکے بحث کے ذریعے اجتماعی دانش کو سامنے لائے جس سے پارلیمان، عدلیہ اور ریاست سب مضبوط ہوں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی منظوری سے عدالتی نظام پر عوام و وکلا کا اعتماد بڑھے گا۔
ان کے مطابق وکلا موجودہ حکومت و حزبِ اختلاف کی اتفاق رائے سے اس قانون کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وکلا کا متفقہ و دیرینہ مطالبہ رہا ہے جس کی تکمیل ہو رہی ہے۔ فرد واحد یعنی چیف جسٹس کی رائے کو تجویز کنندہ کی حیثیت سے فوقیت حاصل ہے جو قطعی طور پر نہ آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حکومت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی و تقرر کے معاملے پر بھی قانون سازی کرے تاکہ ہائی کورٹ کے جج سنیارٹی کے مسلمہ اصول کے تحت سپریم کورٹ میں آئیں۔ ان کے مطابق حکومت قانون سازی کے ذریعے جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تعیناتی کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے میں کردار ادا کرے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے منسلک وکیل اظہر صدیق اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق اس وقت اپوزیشن لیڈر اسمبلی میں غیر قانونی طور پر براجمان ہیں۔ ایسے میں یہ قانون سازی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے رولز بنا رکھے ہیں اور جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چیف جسٹس کو بینچ تشکیل دینے کا مکمل اختیار ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حکومت سپریم کورٹ سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
ان کے مطابق اس بارے میں پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ بل سینیٹ میں جائے گا اور وہاں دیکھا جائے گا کہ کیسے پاس ہوتا ہے۔
اظہرصدیق کے بقول اس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے جو مکمل طور پر ناکام ہوگی۔