بھارت میں چلنے والی خالصتان تحریک کے حامی امرت پال سنگھ اب بھی پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان کے بارے میں متضاد خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب میں ہیں تو کبھی دہلی میں ان کی موجودگی بتائی جا رہی ہے۔ ان کے نیپال فرار ہونے کی بھی خبریں سامنے آ چکی ہیں جس کے بعد کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کے کہنے پر نیپال نے ان کا نام نگرانی کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔
ادھر سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی ادارے ’اکال تخت‘ نے حکومت پنجاب کو خبردار کیا ہے کہ وہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے نام پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار شدہ افراد کو رہا کرے بصورت دیگر اکال تخت اس بارے میں خود فیصلہ کرے گا۔
حامی امرت پال سنگھ کو پولیس 18 مارچ سے تلاش کر رہی ہے۔ انہوں نے بدھ کی شام کو پنجابی زبان میں ایک ویڈیو جاری کرکے دنیا بھر کے سکھوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک بڑے مقصد کے لیے متحد ہو جائیں۔
انہوں نے ایک یو ٹیوب چینل پر جاری کردہ ویڈیو میں اپنے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کے بعد کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔
نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹو ڈے‘ کے مطابق یہ ویڈیو اترپردیش میں کسی مقام پر شوٹ کی گئی ہے اور اسے برطانیہ کے ایک ہینڈل سے جاری کیا گیا ہے۔
امرت پال نے یہ بھی کہا کہ اگر پنجاب حکومت ان کو صرف گرفتار کرنا چاہتی ہے تو وہ ان کے گھر آئے وہ خود کو اس کے حوالے کر دیں گے۔ ان کی گرفتاری کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ نہ تو پہلے گرفتاری سے ڈرے تھے نہ اب ڈر رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف پولیس کارروائی سکھ برادری پر حملہ ہے۔
بعض مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ خالصتان تحریک ایک بار پھر کیوں زور پکڑ رہی ہے اور امرت پال سنگھ اس تحریک کے مرکزی کردار کیسے بن گئے؟ کیوں کہ ایک سال قبل تک انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔
اس معاملے پر نظر ڈالنے سے قبل خالصتان تحریک کے ماضی پر نظر ڈالنی ہوگی۔ یہ ایک علیحدگی پسند تحریک ہے جو پنجاب میں سکھ برادری کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتی ہے۔ گو کہ یہ تحریک بھارت پر برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوئی تھی لیکن اس نے دیگر ملکوں میں آباد سکھ برادری کی مالی امداد کی بنیاد پر80-1970 کے عشروں میں زور پکڑا۔
بعض مبصرین کے مطابق 1947 میں تقسیم کے بعد چوں کہ سکھوں کے روایتی علاقے پاکستان میں چلے گئے تھے اور وہاں سے سکھ بڑی تعداد میں نقل مکانی کرکے بھارت آگئے تھے اس لیے ان میں علیحدہ ریاست کے حصول کا جذبہ پیدا ہوا۔
مبصرین کے مطابق 1973 میں منظور کیے جانے والے آنند پور صاحب قرارداد نے علیحدہ ملک کے جذبے کو پروان چڑھایا۔
اس قرارداد میں پنجاب کو ایک الگ خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کہا گیا کہ مرکزی حکومت خارجہ معاملات، دفاع، کرنسی اور مواصلات کے امور اپنے پاس رکھے باقی معاملات خودمختار ریاست کے حوالے کرے۔
دریں اثنا جرنیل سنگھ بھنڈراں والا جیسے مبینہ انتہاپسند پیدا ہوئے جنہوں نے مذہبی سکھ ازم کو زندہ کرنے کی وکالت کی جس کے نتیجے میں خالصتان تحریک کو تقویت حاصل ہوئی۔
تجزیہ کاروں کہتے ہیں کہ اس تحریک کی وجہ سے پنجاب میں دہشت گردی شروع ہوئی جس کے خاتمے کے لیے اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے آپریشن ’بلو اسٹار‘ شروع کیا۔
یکم جون سے 10 جون 1984 تک مسلح افواج کے اس آپریشن کے نتیجے میں سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل امرتسر میں پناہ گزین بھنڈراں والا اور ان کے ساتھی ہلاک ہوئے۔
اس واقعے کے انتقام کے طور پر 31 اکتوبر 1984 کو وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے محافظوں بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے نئی دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر انہیں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سکھوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد برپا ہوا جس میں بڑی تعداد میں سکھ ہلاک بھی ہوئے۔
آپریشن بلو اسٹار نے اگر چہ پنجاب سے دہشت گردی کا خاتمہ تو کر دیا لیکن سکھ برادری کے بڑے طبقے میں بھارت مخالف جذبات بھی بھڑکا دیے۔
مبصرین کے مطابق آپریشن بلو اسٹار کے بعد علیحدہ ریاست کا مطالبہ دب گیا لیکن دوسرے ملکوں میں آباد سکھ تارکینِ وطن اور بھارت میں خالصتان تحریک کے حامی کچھ لوگ سالانہ احتجاج کرکے آپریشن بلو اسٹار کی یاد تازہ کرنے لگے۔
دریں اثنا خالصتان ملک کے مطالبے پر زور دینے کے لیے خالصتان لبریشن فورس، خالصتان کمانڈو فورس، دل خالصہ، ببر خالصہ، سکھ فار جسٹس وغیرہ جیسی کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سے بیشتر دیگر ممالک سے سرگرم ہیں۔
ان تنظیموں کو امریکہ، برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں مقیم سکھ تارکین وطن کی حمایت حاصل ہے۔
امرت پال سنگھ کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے خلاف برطانیہ اور امریکہ میں بھی احتجاج ہوا اور بھارتی ہائی کمیشن پر حملے بھی ہوئے۔
اگر چہ سکھ تارکین وطن علیحدہ خالصتان ملک کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں لیکن پنجاب میں عمومی طور پر امن قائم رہتا ہے۔ سرکردہ سکھ شخصیات کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود سکھ برادری خالصتان تحریک کی حامی نہیں ہے۔
سکھ برادری کے اعلیٰ انتظامی ادارے ’سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی‘ کے دہلی کے سابق صدر سردار کرتار سنگھ کوچر بھی اس خیال کے مخالف ہیں کہ سکھ برادری کی اکثریت علیحدہ ملک چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سکھ کو خالصتان نہیں چاہیے۔ کچھ شرپسند عناصر ہیں جو اس کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کو نہیں معلوم کہ امرت پال کون ہیں، اچانک کیسے سرگرم ہو گئے، وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا ان کے پیچھے کچھ لوگ ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ پولیس کی گرفت میں نہیں آتے ان سوالوں کا جواب ملنا مشکل ہے۔
’آل انڈیا پیس مشن‘ کے صدر سردار دیا سنگھ موجودہ صورتِ حال کے لیے حکومت اور مرکزی ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف چلنے والی کسانوں کی تحریک میں سکھ، مسلمان اور ہندو جاٹ ایک ساتھ آگئے جس نے تینوں برادریوں کے اتحاد کی ایک صورت پیدا کر دی۔ اس حوالے سے وہ گوڑگاؤں میں نماز کے لیے گرودواروں کے دروازے کھول دینے کی بھی مثال دیتے ہیں۔
ان کے بقول یہ صورتِ حال بعض طبقات کے لیے پریشان کن تھی۔ اس لیے اس اتحاد کو توڑنے اور سکھوں کو بدنام کرنے کے لیے امرت پال سنگھ کو مہرہ بنایا گیا۔
ان کے مطابق 47-1946 میں جب پاکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ ہندو ریاست کی بھی بات کی جانے لگی تو ایک سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے ’سکھ ہوم لینڈ‘ کا مطالبہ کیا تھا جو کہ گاندھی جی کی اس یقین دہانی پر کہ سکھ برادری کے مذہبی تشخص کو برقرار رکھا جائے گا، ترک کر دیا تھا۔
دیا سنگھ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سکھ برادری نے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا ہی نہیں۔ ان کے بقول آنند پور صاحب قرارداد کو خالصتانی قرارداد بتایا جاتا ہے۔ صوبہ پنجاب کو خالصتانی صوبہ کہا گیا۔ 1984 میں سکھوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد برپا کیا گیا۔ اس طرح اس مطالبے کے حالات پیدا کیے گئے۔
ان کے مطابق نہ تو اکال تخت نے کبھی خالصتان کے حق میں کوئی قرارداد منظور کی اور نہ ہی آل انڈیا گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے۔
وہ بیروں ملک موجود سکھوں کی جانب سے خالصتان کی حمایت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1984 کے بعد بہت سے سکھ نوجوان دوسرے ملک چلے گئے۔ اب ان کے لیے پنجاب غیر ملک بن گیا۔ لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اگر پنجاب سکھ برادری کا الگ ملک بن جائے تو ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ امرت پال سنگھ دبئی میں مقیم تھے۔ لیکن گزشتہ سال فروری میں ’وارث پنجاب دے‘ نامی تنظیم کے بانی اور سماجی کارکن دیپ سدھو کی سڑک حادثے میں موت کے بعد وہ واپس آ کر اس تنظیم کے قائد بن گئے۔
انھوں نے خالصتان کے قیام کے لیے جلوس نکالے۔ مبصرین کے مطابق انہوں نے بھنڈراں والا کے انداز میں پرجوش تقریریں کیں جس کی وجہ سے ان کو مقبولیت حاصل ہو گئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انہوں نے ہندو قوم پرستی کے خلاف بات کی اور سکھوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ پر زور دیا جس کی وجہ سے بہت سے سکھ ان کے ساتھ آگئے۔
ان کے والد ترسیم سنگھ نے گزشتہ ہفتے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیٹے نے دہشت گردی کی بات کبھی نہیں کی۔ وہ منشیات کے خلاف مہم چلا رہا تھے۔ ان کو بدنام کرنے کے لیے سازش رچی گئی ہے۔