سانحہ سیالکوٹ: ’ہمارا معاشرہ اس قدر ظالم کیوں ہو رہا ہے؟‘

ملک کے معاملات میں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ریاست انتہا پسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے کو تیار نہیں ہے جب کہ علما اس معاملے میں قوانین پر عمل نہ ہونے کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔​ (فائل فوٹو)

پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کا قتل اور لاش کو جلانے کے واقعے کے بعد ہر طرف سے تنقیدی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

لوگ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان پر بات کر رہے ہیں اور یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ حالات یہاں تک کیسے پہنچے۔

سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ کوئی پہلا معاملہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

ملک کے معاملات میں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ریاست انتہا پسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے کو تیار نہیں ہے جب کہ علما اس معاملے میں قوانین پر عمل نہ ہونے کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔​

'لوگ سچ بولنے سے گھبراتے ہیں، سچ کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے'

اس معاملے پر مذہبی اسکالر محمد حسن الیاس کہتے ہیں کہ جب اس معاملے پر بات ہو گی تو ذہن سازی ہو گی۔ اتنے بڑے معاشرے میں لوگ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن ان میں خوف ہے اور یہ خوف پیدا کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ''خوف کی مثالیں دی گئی ہیں۔ حق کی بات کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ مذہبی لوگ ان کا ٹرائل کرتے ہیں۔ ریاست کی سطح پر بات ہو تو لوگوں کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ لوگ سچ بولنے سے گھبراتے ہیں کیوں کہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہر شخص کا گھر و کاروبار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔''

SEE ALSO: سری لنکن شہری کا قتل: پاکستانی علما کی 10 دسمبر کو 'یومِ مذمت' منانے کی اپیل

انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ان کی بات کو مبینہ طور سینسر کیے جانے سے متعلق کہا کہ 'میرا پروگرام سینسر کیا گیا لیکن اس میں بھی بہتری یہ ہے کہ لوگوں کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جس پر بات کرنا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کی عدم برداشت کے حوالے سے سوچ پیدا ہو رہی ہے۔'

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل 'جی این این' کے ایک پروگرام میں حسن الیاس سے جب سیالکوٹ واقعے کے ذمہ داروں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے اس کا الزام پاکستانی علما، اسٹیبلشمنٹ اور ریاست پر لگایا تھا۔ بعد ازاں جب وہ اپنی گفتگو کر رہے تھے تو بظاہر وقفے وقفے سے ان کی آواز غائب ہوتی رہی۔​

انہوں نے کہا کہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچے کہ وہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو کیا دے رہا ہے۔ ان کے بقول یہ تشویشناک بات ہے۔ یہ ہماری نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا جب تک ہم ایسے معاملات پر آواز نہیں اٹھائیں گے ہمیں آواز نہیں ملے گی۔

'کمیشن بناکر بات کی جائے کہ ہمارا معاشرہ اتنا ظالم کیسے ہو گیا'

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ ہم نے ماہرین کا ایک کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کمیشن میں نفسیات، قانون اور مذہب کے ماہرین شامل ہوں جو اس بات پر غور کریں کہ ہمارا معاشرہ اس قدر ظالم کیوں ہو رہا ہے کہ ایک شخص کو بے لباس کرکے اس کی لاش کو گھسیٹا جائے اور اسے آگ لگادی جائے۔​

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ غور کرنا ہو گا کہ ہم اس قدر تنزلی کی طرف کیوں گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ صرف سیالکوٹ کا واقعہ نہیں بلکہ اس سے دس روز قبل چارسدہ میں ایک پولیس اسٹیشن کو آگ لگائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ہر چند روز میں ایک معاملہ آتا ہے ہم کچھ دن اس پر بات کرتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ موٹروے ریپ کیس اور نور مقدم کیس کا کیا بنا؟

انہوں نے کہا کہ یہاں مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ سزا کی یقینیت اور قانون کے عدم نفاذ کا ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ نورمقدم کیس کا ملزم ظاہر جعفر سزا سے بچ جائے گا۔

قانون پر عمل درآمد کے لیے علما کے کردار کے حوالے سے قبلہ ایاز نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علما نے پیغام پاکستان میں کہا تھا کہ سزا دینا صرف ریاست کا استحقاق ہے۔ لیکن یہ ریاست کا کام ہے کہ قانون پر عمل کیوں نہیں ہو رہا۔

'معاشرے میں مسلمانوں کے جذبات ابھارے جاتے ہیں'

تجزیہ کار خورشید ندیم کے مطابق مسلمانوں کے ذہن میں یہ ڈالا گیا کہ اسلام ہمارے لیے شان و شوکت کا مؤجب ہے۔ لیکن یہ شان و شوکت مغرب نے چھین لی ہے اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دوبارہ اٹھیں اور اسے ان سے چھین لیں​۔

ان کے بقول ماضی میں مختلف سیاسی جماعتیں مذہبی معاملات کو استعمال کرتی رہیں۔ اس عرصے میں جو ذہن بنا وہ یہ ہے کہ جب اس معاملے پر کوئی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ توہین تو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرے گا۔ بعد میں اس کی مذمت کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ البتہ جب برداشت نہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو اس عمل کی توثیق کی جاتی ہے۔ "سب نے مل کر اس ذہنیت کو پروان چڑھایا اور اب سب اس کے نتائج بھگت رہے ہیں اور بھگتیں گے۔"

SEE ALSO: پاکستان: مسجد سے مسیحی شخص کے انتقال کے اعلان پر تنازع، توہینِ مذہب کے الزام میں 4 افراد گرفتار

خورشید ندیم نے اس کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے دو حل ہیں پہلا یہ کہ مذہب کے ساتھ محبت کا عمل سکھایا جائے۔ دوسرا یہ کہ ریاست متحرک ہو کہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا دے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس بات پر اتفاق کیا جائے کہ کوئی بھی شخص ایسا عمل کرے گا وہ مجرم قرار پائے گا۔

ان کے بقول عدالتوں کے سوا کسی جماعت یا شخصت کے فیصلوں کو نہ مانا جائے۔ میڈیا ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرے ۔ ایسے نعرے لگانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔

'مذہبی نعروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا'

اس تمام صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ​انہوں نے مختلف مذہبی جماعتیں تشکیل دیں اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

اس الزام پر پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ ماضی میں ہمیشہ سیاسی رہنماؤں اور مذہبی شخصیات نے مذہبی نعروں کو اپنے حق میں استعمال کیا اور بعد میں جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو فوج کو مدد کے لیے بلا لیا اور جب فوج نے ان معاملات کو حل کیا تو پھر فوج کو ہی ہدف تنقید بنایا گیا۔

امجد شعیب نے کہا کہ لال مسجد کے واقعے سے قبل پوری قوم میڈیا کے ذریعے اس بات پر متفق تھی کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے اور جب نمٹا گیا تو سب نے کہا کہ بہت بڑا ظلم ہو گیا۔ اگر موجودہ دور میں تحریکِ لبیک کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جاتا تو ایک اور لال مسجد کا سانحہ ہوتا جس کے نتائج اور کئی برس تک بھگتنا پڑتے۔