رسائی کے لنکس

سیالکوٹ واقعہ: سری لنکن مینیجر کو بچانے کی کوشش کرنے والے کو تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان


پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں فیکٹری کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت پر پولیس نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ جب کہ پولیس نے مزید چھ ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔

ادھر وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے سری لنکن مینیجر کو بچانے کی کوشش کرنے والے فیکٹری ملازم ملک عدنان کو تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان کیا ہے۔

اتوار کو اپنی ٹوئٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پوری قوم کے توسط سے ملک عدنان کی بہادری اور شجاعت پر اُنہیں سیلیوٹ کرتے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک عدنان نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر پریانتھا کمارا کو جنونی جتھے سے بچانے کی پوری کوشش کی اور اُن کی ڈھال بنے رہے۔ لہذٰا ہم انہیں تمغۂ شجاعت سے نوازیں گے۔

خیال رہے کہ سری لنکن مینیجر پر حملے کے دوران پروڈکشن مینیجر ملک عدنان نے اُنہیں مشتعل ہجوم سے بچا کر چھت پر نصب سولر پینل کے نیچے چھپنے میں مدد دی تھی۔ تاہم بعدازاں مشتعل ہجوم نے چھت پر پہنچ کر پریانتھا کمارا کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ملک عدنان ڈھال بن گئے اور خود بھی تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔

سری لنکن مینیجر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے جس میں ہلاکت کی وجہ دماغ اور چہرے پر ضربوں کو قرار دیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پریانتھا کمارا کی موت دماغ اور چہرے پر چوٹیں لگنے سے ہوئی۔ سری لنکن شہری کی بازو، کولہے اور ریڑھ کی ہڈی سمیت جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ان کی صرف ایک پاؤں کی ہڈی ٹھیک تھی باقی پورے جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق سری لنکن شہری کے جسم کا 99 فی صد حصہ جل چکا تھا۔​

خیال رہے پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں تین دسمبر کو ملبوسات بنانے والی ایک فیکٹری راجکو انڈسٹریز کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے توہین مذہب کا الزام لگا کر تشدد کیا تھا اور انہیں ہلاک کرکے ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

اتوار کو پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے گزشتہ 12 گھنٹوں میں مزید چھ مرکزی کرداروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں کیا ہے؟

اس واقعے پر پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ اعلیٰ حکام کو جمع کرا دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری میں رنگ و روغن کا کام جاری تھا۔ پریانتھا کمارا نے رنگ کے لے ورکرز سے دیواروں پر لگی تمام اشیا ہٹانے کا کہا تھا اور وہ خود بھی دیواروں سے چیزیں ہٹاتے رہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق اسی دوران دیوار پر سے کچھ مذہبی پوسٹر اتارے گئے جس پر ورکرز نے احتجاج کیا۔ بات فیکٹری مالکان تک پہنچی تو مالکان کے کہنے پر پریانتھا کمارا نے معذرت کر لی تھی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا۔ البتہ بعد ازاں کچھ اور فیکٹری ورکرز پوسٹر ہٹائے جانے پر مشتعل ہو گئے۔

حکام کو جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سیالکوٹ عمر سعید کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پولیس کو اطلاع اس وقت ملی جب غیر ملکی مینیجر کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ ان کے بقول مینیجر کی ہلاکت فیکٹری کے اندر ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او وہاں پہنچے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او سیالکوٹ عمر سعید نے بتایا کہ پولیس جائے وقوع پر تاخیر سے نہیں پہنچی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کو اطلاع ہی اس وقت ملی جب فیکٹری کے اندر یہ واقعہ ہو چکا تھا اور مینیجر کو ہلاک کردیا گیا تھا جس کے بعد ان کی لاش کو جلا دیا گیا تھا۔

ڈی پی او عمر سعید نے ابتدائی تحقیقات سے متعلق مزید بتایا کہ واقعہ میں پولیس، اس کا ایس ایچ او، ریاست خود شکایت کنندہ ہے۔ جب کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔

عمر سعید کے بقول سری لنکن مینیجر کو مارنے کا واقعہ جمعہ کو دن دس بج کر تین منٹ پر شروع ہوا، پولیس کو ون فائیو پر گیارہ بج کر 26 منٹ پر کال کی گئی۔ اس دوران کسی نے واقعے سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ اس تقریباً سوا گھنٹے کے دوران فیکٹری میں سب کچھ ہوتا رہا۔ ان کے بقول یہ ایک بڑی فیکٹری ہے جو پانچ سے چھ منزلوں پر مشتمل ہے اور وہاں تین ہزار ورکرز کام کرتے ہیں۔

ڈی پی او نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پولیس کو دیر سے اطلاع کیوں دی گئی۔ ابتدائی طور پر فیکٹری کے اندر لوگوں نے معاملے کو خود حل کرنے کی کوشش کی تھی اور اطلاعات کے مطابق معاملہ کسی حد تک حل ہو بھی گیا تھا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے پر سری لنکن مینیجر نے معافی بھی مانگی۔ اسی اثنا میں دس بج کر 50 منٹ سے دس بج کر 55 منٹ کے درمیان معاملہ کافی حد تک حل ہوا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں جب مینیجر کو بالائی منزل پر لے جایا گیا تو وہاں موجود ورکرز نے، جنہیں واقعے کا اندازہ نہیں تھا، شور مچانا شروع کر دیا جس کے بعد تشدد شروع ہو گیا۔

عمر سعید کے بقول اسی اثنا میں سری لنکن مینیجر کی ہلاکت ہو گئی اور انہیں گیارہ بج کر پانچ منٹ سے دس منٹ تک نیچے گھسیٹنا شروع کیا گیا۔​

ان کے مطابق پولیس کو جب گیارہ بج کر چھبیس منٹ پر فون آیا تو کہا گیا کہ ایک شخص کو زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ جس کے بعد گیارہ بج کر اٹھائیس منٹ پر ایس ایچ او جائے وقوع کے لیے روانہ ہوئے۔

ڈی پی او نے مزید بتایا کہ ایس ایچ او گیارہ بج کر چالیس منٹ پر وہاں پہنچ گئے تھے۔ انہیں وہاں پہنچنے میں بارہ منٹ اس لیے لگے کیوں کہ تین سے چار ہزار افراد سڑک پر آ چکے تھے اور انہوں نے سڑک بند کر رکھی تھی۔​ اسی طرح گیارہ بج کر 50 منٹ پر ڈی ایس پی وہاں پہچنے۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ خود اور دیگر پولیس ٹیمیں بھی حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے وہاں پہنچے تو ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے 20 منٹ پیدل چلنا پڑا۔ ان کے مطابق تمام ایس ایچ اوز تیس منٹ میں جائے وقوعہ پر تھے۔

عمر سعید کے مطابق مینیجر کو جلانے کے مناظر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ البتہ انہیں مارنے والی فوٹیجز پولیس کے پاس ہے۔ ان فوٹیجز کے مطابق انہیں پہلے مارا جا چکا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فیکٹری کے اندر کی تمام فوٹیجز صرف پولیس کے پاس ہیں۔

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ گیارہ بج کر 30 منٹ پر مینیجر کی ہلاک ہو چکی تھی اور انہیں جلایا جا چکا تھا۔​

انہوں نے بتایا کہ واقعے کے 13 مرکزی ملزمان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سری لنکن مینیجر نے دیوار سے مذہبی پوسٹر ہٹائے تو وہ اشتعال میں آ گئے۔

عمر سعید کے بقول پولیس کو اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اتنا سنگین ہو جائے گا۔ پولیس کی پہلی ٹیمیں چار سے پانچ افراد پر مشتمل تھیں۔ وہ جب جائے وقوعہ پر پہنچیں تو سارے فیکٹری ورکرز باہر موجود تھے اور ان کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار تھی۔

انہوں نے کہا کہ مینیجر کی ہلاکت کے بعد سب سے اہم مسئلہ فیکٹری کو بچانا تھا کیوں کہ مشتعل ہجوم فیکٹری کو بھی آگ لگانا چاہتا تھا۔​ ایسی صورتِ حال میں فیکٹری مالکان، ان کے گھروں اور دیگر لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنایا اور پولیس نے مشتعل ہجوم کو جائے وقوعہ سے پیچھے ہٹایا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشتعل کارکنوں کے خوف سے فیکٹری کے سیکیورٹی گارڈز اور سپروائزر اپنا کام چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق واقعے میں مطلوب ملزمان کی گرفتاری کے لیے ان کی تصویر جگہ جگہ لگا دی گئی ہے۔

'ملزمان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی'

دوسری جانب وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت کہتے ہیں کہ پولیس رپورٹ کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ واقعے پر چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جیز سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ و متعلقہ افسران معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔

راجہ بشارت کے بقول واقعے کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کرکے ان کا چالان جلد عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے نواحی علاقوں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں جب کہ دیگر فیکٹری ملازمین کی معاونت سے واقعے میں ملوث افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

وزیرِ قانون کے مطابق سری لنکن مینیجر مبینہ طور پر فیکٹری کے انتظامی معاملات میں خاصے سخت تھے۔ واقعے کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔​

انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیرملکی فیکٹریز کی سیکیورٹی سخت کردی ہے۔ مذکورہ واقعے کی غیر جانبدارانہ تفتیش جاری ہے۔ جلد حقائق سامنے آجائیں گے۔

XS
SM
MD
LG