پاکستان کی سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو بری کر دیا ہے۔
کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کے دیگر ملزمان کو بھی بری کر دیا ہے۔
ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن قتل کے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔
لطیف کھوسہ کے مطابق دہشت گردی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے۔
خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ دو ملزمان مرتضیٰ لاشاری اور سجاد تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے دہشت گردی کے قانون کے تحت ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے عمر قید کے فیصلے کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔
SEE ALSO:
سپریم کورٹ کے حکم پر شاہ زیب قتل کیس کے ملزم دوبارہ گرفتار'شاہ زیب قتل کیس میں سول سوسائٹی کیسے متاثرہ فریق ہے؟'شاہ زیب قتل کیس، ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکمسپریم کورٹ میں شاہ زیب قتل کیس سے متعلق درخواست طلب’انصاف کا بول بالا ہوا ہے‘
کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں بھی عفو و در گزر کا ذکر ہے۔ مقتول کے خاندان کی شارخ جتوئی سے صلح ہو چکی ہے۔ شاہ رخ جتوئی کی عمر تب 18 سال تھی اب اصلاح کا موقع ملنا چاہیے۔
کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شاہ رخ جتوئی قتل میں ملوث تھے یا نہیں۔ اب صلح ہوگئی ہے تو مزید بات نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کو دہشت گردی کی دفعات ختم کی ہیں۔ مقدمے میں شامل سیون اے ٹی اے کا مقصد دہشت گردی پھیلانے میں ملوث ہونا ہوتا ہے۔
لطیف کھوسہ کے مطابق شاہ رخ جتوئی کے معاملے میں دہشت گردی کی اس دفعہ ختم کر دیا گیا ہے۔ انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔ دونوں خاندانوں کے آپس میں اچھے تعلقات ہوگئے ہیں۔
جیل میں شاہانہ انداز
رواں برس جنوری میں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ ملزم شاہ رخ جتوئی کو خلافِ ضابطہ کئی ماہ سے جیل سے باہر نجی اسپتال میں رکھا گیا تھا۔
مقامی میڈیا پر خبر نشر ہونے کے فوری بعد ہی ملزم کو دوبارہ سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو محکمۂ داخلہ کے ایک حکم کے تحت چھ ماہ تک کراچی کے پوش علاقے گزری میں واقع نجی اسپتال میں رکھا گیا تھا۔
اسپتال انتظامیہ نے وائس آف امریکہ کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ شاہ رخ جتوئی چھ ماہ سے زائد عرصے سے اسپتال میں تھے۔
اس سے قبل شاہ رخ کا کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز میں بھی کچھ عرصہ زیرِ علاج رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔
یوں ایک سال تک شاہ رخ جتوئی کمر درد اور معدے کی تکلیف پر جیل سے باہر نجی اسپتالوں میں ہے۔
شاہ رخ جتوئی کو جیل سے باہر نجی اسپتالوں میں زیرِ علاج رکھنے کو کئی قانونی ماہرین نے خلافِ قانون عمل قرار دیا تھا۔
کریمنل لا کے ماہر وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ کے مطابق ملزم کو کسی تکلیف کی صورت میں جیل کے اسپتال ہی میں علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ ملزم کی طبیعت بگڑنے پر سرکاری اسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ملزم شاہ رخ جتوئی انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسے جیل میں غیر معمولی سہولیات فراہم کرنے پر پہلے بھی کئی بار سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی جیل کے دورے کے موقع پر ملزم کو سزائے موت کا قیدی ہونے کے باوجود شاہانہ کمرے میں ٹھہرانے پر جیل حکام کی سرزنش کی تھی اور ملزم کو جیل قوانین کے مطابق قید رکھنے کا حکم دیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس تھا کیا؟
شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے 2012 میں کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں نوجوان شاہ زیب خان کو ذاتی رنجش پر گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔
واقعے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا تھا۔ سول سوسائٹی کے شدید احتجاج پر اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس لیا گیا۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد ملزم کو بیرونِ ملک سے پاکستان لا کر گرفتار کیا گیا۔
ملزم کی واپسی پر مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں دائر ہوا جس میں سات جون 2013 کو شارخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت اوران کے سیکیورٹی گارڈ مرتضیٰ لاشاری اور سجاد تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے مرکزی ملزم کے وکلا کی جانب سے اسے 18 سال سے کم عمر قرار دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔
اس دوران ملزمان اور مقتول کے خاندان کے درمیان صلح ہو گئی تھی۔
دونوں خاندانوں میں ہونے والی اس صلح کے تحت مقتول کے خاندان نے بھاری معاوضے کے عوض ملزمان کو معاف کر دیا تھا۔
عدالت نے دونوں خاندانوں کے صلح نامے کو قبول کرتے ہوئے بھی یہ قرار دیا تھا کہ قتل کی دفعات کے برعکس انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں فریقین کے درمیان صلح نامہ قابل قبول نہیں ہوتا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد مئی 2019 میں ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ دو دیگر ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی گئی تھی۔
ملزمان کے وکیل حق نواز تالپور نے اس وقت بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو ملزمان کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر اب فیصلہ آ گیا ہے۔
شاہ رخ جتوئی کون ہے اور صلح کیسے ہوئی؟
وائس آف امریکہ کے اسلام آباد کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق شاہ رخ جتوئی کا تعلق سکھر سے ہے اور ان کے والد سکندر جتوئی ایک بڑی کارباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں جو تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں۔جب کہ سندھی زبان کا ایک نیوز ٹی وی چینل بھی ان کی ملکیت ہے۔
شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے بعد ان کے والد نے اس کیس میں متعدد بڑے وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی کوشش تھی کہ ان کا بیٹا جلد از جلد اس کیس میں بَری ہو سکے البتہ اس دوران سول سوسائٹی اور عدلیہ کے دباؤ کے باعث شاہ رخ جتوئی جیل سے باہر نہ آ سکے۔
سال 2013 میں سندھ حکومت کی شاہ رخ جتوئی کو صدارتی معافی دلوانے کی ایک کوشش کا بھی انکشاف ہوا تھا۔
اس وقت کی سندھ کی حکومت نے صدر آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے انہیں صدارتی معافی دلوانے کی کوشش کی تھی البتہ اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس پر اعتراض لگا کر یہ فائل روک لی اور صدر آصف علی زرداری کی صدارت کی مدت پوری ہونے تک اس فائل کو روکے رکھا۔
ملزمان کی طرف سے معافی کی تین درخواستیں دی گئی تھیں البتہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تمام درخواستیں مسترد کر دی تھیں جب کہ انہیں صدر آصف علی زرداری تک پہنچنے نہیں دیا تھا کیوں کہ یہ درخواستیں وزارتِ داخلہ کے ذریعے ہی صدر تک پہنچتی ہیں۔
شاہ رخ جتوئی کی بریت کی سب سے اہم وجہ مدعی مقدمہ کی طرف سے صلح اور راضی نامہ بتا یا جاتاہے۔
اس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ جتوئی خاندان نے مقتول شاہ زیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب اور ان کے خاندان سے رابطہ کیا اور دیت کی رقم ادا کرنے کا کہا گیا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے 35 کروڑ روپے کی رقم ادا کی گئی جب کہ آسٹریلیا میں ایک فلیٹ خرید کر دیا گیا۔
اس خبروں کی تصدیق دونوں خاندانوں نے کبھی نہیں کی اور ہمیشہ یہی کہا گیا کہ انہوں نے اللہ کی رضا کے لیے شاہ رخ جتوئی کو معاف کیا۔
دوسری جانب مقتول شاہ زیب کے تمام اہل خانہ بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں جب کہ 2018 میں شاہ زیب کے والد سابق ڈی ایس پی اورنگزیب کا نیوزی لینڈ میں انتقال ہوا تھا اور ان کی تدفین بھی وہیں کی گئی تھی۔