طالبان کی حکومت کے ایک برس بعد بھی افغانستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ اس صورتِ حال نے چین کو افغانستان میں ایک بڑا پلیئر بننے کا موقع فراہم کیا ہے۔
عالمی برادری کابل کے نئے حکمرانوں پر افغانستان کے تمام لسانی و نسلی گروہوں کی نمائندہ حکومت کے قیام، خواتین کے حقوق اور بالخصوص تعلیم اور روزگار تک رسائی کی آزادی جیسی اصلاحات کے نفاذ کے لیے زور دیتی رہی ہے۔ چین بھی ان مطالبات کی تائید کرتا ہے۔لیکن ساتھ ہی چین نے طالبان حکومت سے اپنے سیکیورٹی تحفظات دور کرنے کے عوض تعمیر و ترقی میں معاونت اور معاشی امداد جیسے وعدے بھی کررکھے ہیں۔
چین کو خاص طور پر افغانستان میں موجود ایغور مسلح گروپس کی جانب سے اپنے مفادات کو زد پہنچنے کا خدشہ ہے اور خاص طور پر اسے خطے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(بی آر آئی) سے متعلق ان گروپس سے خطرات کا سامنا ہے۔
افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے سے قبل چین کے اس کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ چین کی درخواست پر افغان سیکیورٹی فورسز ایغور مسلح گروپس کے خلاف کارروائیاں اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی کرتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی گزشتہ برس اگست میں طالبان اقتدار میں آئے تو چین نے ان سے بھی تعلقات قائم کرلیے کیوں کہ وہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی کے بعد خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتا تھا۔
چین اور طالبان کے تعلقات
دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت کو اب تک تسلیم نہیں کی۔ ماضی میں حکومت کو ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد بھی رک چکی ہے۔ افغانستان کے اربوں ڈالر کے ریاستی اثاثے منجمد ہیں جب کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث ملکی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔
ان حالات میں طالبان چین کی سرمایہ کاری اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔
نئی دہلی کے ’اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے اسٹریٹجک اسٹڈیز پروگرام سے وابستہ کبیر تنیجا کا کہنا ہے کہ چین طالبان کے ساتھ فعال سفارت کاری کررہا ہے۔ وہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کر چکا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ایک برس مکمل، ملک بھر میں عام تعطیلوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کبیر تنیجا کا کہنا تھا کہ چین نے ابھی تک جو اشارے دیے ہیں وہ غیر معمولی ہیں لیکن عملی سطح پرقابلِ ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔ان کے خیال میں چین اپنے بارے میں یہ تاثر قائم نہیں ہونے دینا چاہتا کہ وہ معاشی اور سیاسی طور پر طالبان حکومت کی سرپرستی کررہا ہے۔
اپریل میں چین نے طالبان کو بیجنگ میں افغانستان کا سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی تھی۔ حالیہ مہینوں میں افغانستان میں چینی سفارت خانے کے اہل کاروں اور چین کی سرکاری کمپنیوں کے نمائندوں نے طالبان حکومت کے وفاقی اور صوبائی نمائندوں سے سرمایہ کاری اور تعمیرِ نو سے متعلق منصوبوں پر بات چیت بھی کی ہے۔افغانستان میں حالیہ زلزلے سے متاثرین کی امداد کے لیے چین نے 80 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔
حال ہی میں افغانستان کے لیے چین کے نمائندہ خصوصی یو یا یونگ نے تاشقند میں 26 جولائی کو افغانستان پر ہونے والی ایک کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ بیجنگ پورے افغانستان میں بین الاقوامی ریلوے نظام کی تعمیر کے لیے مالی مدد فراہم کرے گا۔ اس نظام کے ذریعے افغانستان ازبکستان اور پاکستان کی بندر گاہوں سے منسلک ہوجائے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کی طرح چین بھی سفارتی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بغیر ہی محتاط انداز میں اس کے ساتھ تعلقات آگے بڑھ رہا ہے۔
نیویارک میں مشاورت کی خدمات فراہم کرے والی کمپنی وزیر کنسلٹنگ کے سربراہ عارف رفیقی کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیاں افغانستان میں کاروباری مواقع کی کھوج میں ہیں۔ لیکن ملک میں سیاسی استحکام اور سیکیورٹی کی صورتِ حال ایسی نہیں جو صنعتی سطح پر کسی بڑی سرمایہ کاری کے لیے ضروری تصور ہوتی ہے۔
چین کے خدشات
امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے سے زیادہ چین ایغور مسلح گروپس کے حملوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ چین ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) کو اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں 'بدامنی' کا ذمے دار قرار دیتا ہے اور اس کے پرانے نام ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) ہی سے تنظیم کا حوالہ دیتا ہے۔
ٹی آئی پی نامی یہ تنظیم سنکیانگ اور ایغور آبادی کو چین سے آزاد کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے چینی مفادات کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
طالبان نے 1996 سے 2001 کے دروان اپنی حکومت میں چین سے برسر پیکار ایغور گروپس کو افغانستان میں ٹھکانے بنانے کی اجازت دی تھی۔ ٹی آئی پی القاعدہ کی قیادت میں بننے والے اس کثیر قومی جہادی تنظیموں کے اتحاد میں شامل تھی جس نے گزشتہ برس امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کرنے میں طالبان کی مدد کی تھی۔
ماہرین کے نزدیک چین کو اس بات کا اداراک ہے کہ کابل کے نئے حکمرانوں کو ایغور جنگجوؤں کی افغانستان سے بے دخلی کے لیے قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم طالبان تواتر سے یہ پیغام بھی دوہرا رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حال ہی میں طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے تاشقند میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک بار پھر یہ یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا "اماراتِ اسلامی افغانستان اپنے کسی رکن یا بشمول القاعدہ کسی فرد یا گروہ کو افغانستان کی سرزمین سے دوسروں کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔"
عارف رفیقی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کا ایغور مسلح جنگجوؤں کے ساتھ برتاؤ اپنے دیگر اتحادی غیر ملکی جہادی گروپس جیسا ہی ہے۔طالبان ان گروپس سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے ممالک کے حوالے کرنے سے انکاری ہیں البتہ انہیں بے ضرر بنانے اور سرحد پار سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لیے خاموشی کے ساتھ اقدامات کررہے ہیں۔
بظاہر اس کے کچھ شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ طالبان ایغور جنگجوؤں کو بدخشان سے منتقل کررہے ہیں۔ افغانستان کے شمال مغرب میں یہ صوبہ چین کے ساتھ 76 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں سے ایغور عسکریت پسندوں کی منتقلی چین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ایغور عسکریت پسند افغانستان میں اپنی سرگرمیاں ذرائع ابلاغ پر لانے سے متعلق انتہائی محتاط ہوگئے ہیں اور کچھ برس قبل کے مقابلے میں چین سے متعلق ان کی جانب سے جارحیت کے اظہار میں بھی کمی آئی ہے۔
SEE ALSO: تاشقند کانفرنس: طالبان کیا چاہتے ہیں؟غیر ریاستی عناصر اور عسکریت پسند تنظیموں کے امور کی مہارت رکھنے والے محقق اور 'ملیٹنٹ وائر' نامی خبررساں ادارے کے مدیر لوکس ویبر کا کہنا ہے کہ 2008 کے بیجنگ اولمپکس کے مقابلے میں 2022 کے گیمز سے متعلق ٹی آئی پی کے جاری کردہ پیغامات میں واضح فرق ہے۔
ان کے مطابق 2008 میں ٹی آئی پی واشگاف انداز میں چین پر حملے کی دھمکیاں دے رہی تھی لیکن 2022 میں گروپ کو چین کے ساتھ اپنی مخاصمت اور اپنے میزبان طالبان کے ساتھ چین کے عملی روابط کے پیش نظر اپنے پیغامات میں توازن پیدا کرنا پڑا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 15 جولائی کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مبینہ طور ٹی آئی پی نے بدخشاں صوبے میں دوبارہ کئی ٹھکانے بنا لیے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گروپ نےخفیہ طور پر ہتھیاروں کی خریداری بھی کی ہے۔ ان سب سرگرمیوں کا مقصد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنی صلاحیت بڑھانا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سلامتی کونسل کے مطابق مشاہدے میں آیا ہے کہ ٹی آئی پی کو محدود کرنے کے لیے طالبان کی کوششیں ایک بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ گروپ حالیہ عرصے میں کوئی کارروائی نہیں کرسکا ہے۔
داعش خراسان اور چین کے خدشات
افغانستان میں داعش سے منسلک گروپ ’اسلامک اسٹیٹ خراسان پراونس (آئی ایس کے پی) کی بڑھتی ہوئی قوت سے بھی چین کو پریشانی ہو سکتی ہے کیوں کہ اس گروپ کے چین پر حملوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ کے انخلا کے بعد 'آئی ایس کے پی' نے خود کو افغانستان میں بچ جانے والی آخری جہادی تنظیم کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف نئے حامیوں کی بھرتی کے لیے طالبان پر توجہ مرکوز کر رہی ہے بلکہ دیگر قومیتوں اور نسلی گروپوں کی جہادی تنظیموں اور علیحدگی پسند تحریکوں کی جانب بھی متوجہ ہوئی ہے۔
اس بارے میں عسکریت پسندی پر تحقیق کرنے والے لوکس ویبر کا کہنا ہے کہ داعش کی مرکزی تنظیم نے 2010 کی دہائی میں چین کو دشمن قرار دیا تھا اور چین سے متعلق اس کے بیانات میں شدت آگئی تھی۔ لیکن اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد داعش نے بیجنگ اور طالبان کے درمیان تعلقات پر نظر رکھی ہوئی ہے اور ان روابط میں بہتری پر طالبان حکومت کو ملامت کرتی ہے۔
آئی ایس کے پے کے جاری کردہ حالیہ میگزینز اور ویڈیوز میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی اور ملا عبدا لغنی برادر کی ملاقات اور تحائف کے تبادلے کے مناظر کو بار بار دکھایا گیا ہے۔
SEE ALSO: چین کی طالبان حکومت کو تاجروں کے ویزا اجرا کی یقین دہانی، فضائی سفر پر بھی تبادلۂ خیالسلامتی کونسل کے مطابق آئی ایس کے پی کو ٹی آئی پی سے تعلق رکھنے والے 50 عسکریت پسندوں کو بھاری ماہوار تنخواہوں پر اپنے ساتھ ملانے میں کامیابی مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ بدخشان میں ٹی آئی پی کے آپریشنل کمانڈر کو بھی شمولیت کے لیے دعوت دی تھی لیکن کمانڈر نے اس سے انکار کردیا تھا۔
پاکستان میں چینی باشندوں اور منصوبوں کو خطرہ
ماضی میں اشرف غنی کی حکومت پر پاکستان میں چین کے بی آر آئی منصوبوں اور چینی شہریوں پر حملے کرنے والے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں جیسے گروپس کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا تھا۔ اسلام آباد اور بیجنگ کو امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد بلوچ عسکریت پسندوں کا خطرہ کم ہوجائے گا۔
لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے پانچ دن بعد بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے گودار میں چینی ورکرز کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔
بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروپس بی آر آئی سے منسلک منصوبوں کی وجہ سے چین کو اپنا حریف اور استحصال کرنے والی قوت سمجھتے ہیں۔حالیہ برسوں میں بی ایل اے سمیت علیحدگی پسند گروپس کا اتحاد بننے کے بعد چینی باشندے ان کی کارروائیوں کا ہدف رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں بی ایل اے نے کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذاہ پر حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ کراچی میں ہی بی ایل اے نے 2018 میں چینی قونصلیٹ اور 2020 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پرحملے میں تین چینی باشندوں کے قتل کی ذمے داری تسلیم کی تھی۔ واضح رہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں چینی سرمایہ کاروں کا حصہ 40 فی صد ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپس کے مطابق گوادر میں ہونے والے حملے کے بعد طالبان نے بڑی تعداد میں علیحدگی پسندوں اور ان کے خاندانوں کو ننگر ہار اور نیمروز کے صوبوں سے بے دخل کردیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایغور علیحدگی پسند گروپ ٹی آئی پی اور ٹی ٹی پی میں قربتیں بڑھی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دونوں تنظیموں میں عسکری تربیت اور دھماکہ خیز مواد کی تیاری سے متعلق اشتراکِ عمل بڑھا ہے۔ دونوں دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ بندی اور حوصلہ افزائی پر توجہ بھی دے رہے ہیں۔