کابل پر طالبان کے قبضے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اتوار کے روز اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت سے فرار ہونے کا عمل انتہائی عجلت میں کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ ان کے بقول وہ باغیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچنا چاہتے تھے۔
اشرف غنی نے نیوز چینل 'سی این این' کو یہ بھی بتایا کہ 15 اگست 2021 کی صبح جب افغان دارالحکومت کے دروازوں پر طالبان دستک دے رہے تھے ، وہ اپنے محافظوں کے غائب ہو جانے کے بعد صدارتی محل چھوڑنے والے آخری فرد تھے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع نے انہیں اس دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کابل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
اشرف غنی اس سے قبل سقوطِ کابل کے روز اپنے اقدامات کا جواز پیش کر چکے ہیں لیکن اتوار کو انہوں نے اس سلسلے میں مزید تفصیلات سے پردہ اٹھایا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ محل کے باورچیوں میں سے ایک کو مجھے زہر دینے کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی پیش کش کی گئی تھی۔ جس سے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے آس پاس کا ماحول اب محفوظ نہیں رہا۔
ان کے بقول کابل چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ طالبان اور ان کے حامیوں کو یہ خوشی نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ ایک بار پھر ایک افغان صدر کی تذلیل کر کے ان سے حکومت کی قانونی حیثیت پر دستخط کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ "میں کبھی بھی خوف زدہ نہیں ہوا۔"
ناقدین کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو اشرف غنی کی اچانک اور چوری چھپے روانگی نے ایک ایسے موقع پر کابل کو بے یاروو مددگار چھوڑ دیا تھا جب 20 سالہ جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کا ملک سے افراتفری کے عالم میں انخلا اپنے آخری مراحل میں تھا۔
اشرف غنی نے خود پر لگائے جانے والے ان الزامات سے بھی انکار کیا کہ ہیلی کاپٹروں میں فرار ہوتے وقت وہ اور ان کے دوسرے عہدے دار نقدی کی صورت میں لاکھوں ڈالر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
کانگریس کے مقرر کردہ ایک نگران ادارے نے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ غنی اور ان کے سینئر مشیر ہیلی کاپٹروں میں فرار ہوتے وقت بہت بڑی مقدار میں نقد رقوم اپنے ساتھ لے گئے ہوں۔
افغانستان کی تعمیر نوسے متعلق انسپکٹر جنرل (سگار)کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہائی عجلت میں ان کے فرار ، کارگو پر مسافروں کے دباؤ کی نوعیت، ہیلی کاپٹروں کے وزن اٹھانے کی صلاحیت ، محدود کارکردگی ، اور ان گواہوں کے تفصیلی بیانات سے، جو زمین اور پرواز میں موجود تھے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹروں پر نقدی کی شکل میں پانچ لاکھ ڈالر سے کچھ ہی زیادہ رقم تھی۔
سگار افغانستان میں کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر امریکی اخراجات کی جانچ پڑتال کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ایجنسی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قوی امکان موجود ہے کہ طالبان کے قبضہ کرنے کے دوران افغان حکومت کی تنصیبات اور نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکیورٹی سے بڑے پیمانے پر امریکی ڈالر غائب ہو گئے ہوں، جن میں صدارتی محل کے بھی لاکھوں ڈالر شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نگران ادارہ یہ تعین کرنے سے قاصر ہے کہ کتنی رقوم چرائی گئیں اور کس نے چوری کیں۔
آخر کار، طالبان نے گزشتہ اگست میں کسی بڑی لڑائی کے بغیر ہی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا اور ایک ہفتے تک جاری رہنے والی محدود فوجی جھڑپوں کے دوران طالبان تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قابض ہو گئے تھے۔ انہیں افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے، جن کے حوصلے پست ہو گئے تھے، کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
افغانستان پر قبضے کے بعد اپنے اقتدار کے پہلے ایک سال کے دوران ، سابق باغیوں نے اپنے ابتدائی وعدوں کے برعکس تعلیم اور ملازمتوں تک لڑکیوں اور خواتین کی رسائی محددو کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ طالبان بین الاقوامی سطح پر زیادہ تر الگ تھلگ ہیں اور وہ بڑی حد تک اس بین الاقوامی امداد سے بھی محروم ہو گئے ہیں، جو غنی حکومت کے دور میں افغانستان کو مل رہی تھی۔
طالبان اقتدار پر اپنا کنٹرول بحال رکھنے اور معیشت کے اس بڑے بحران پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس نے مزید لاکھوں افغان باشندوں کو غربت اور بھوک کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔
ان چیلنجوں کے باوجود، طالبان کی زیرقیادت حکومت نے پیر کو اپنے اقتدار کی پہلی سالگرہ منانے کے لیے کئی تقریبات کا منصوبہ بنایا، جس میں طالبان حکام کی تقاریر اور کھیلوں کے کئی پروگرام شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔