تبدیلیٔ مذہب کے معاملے پر سیمینار میں سندھ کے مذہبی رہنما کی شرکت پر اعتراض کیوں؟

وزیر مذہبی اُمور تبدیلی مذہب سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ اسٹیج پر مولانا عبدالحق عرف میاں مٹھو بھی موجود ہیں۔

پاکستان میں زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے الزامات کا سامنا کرنے والے مولانا عبدالحق عرف میاں مٹھو کی اس موضوع پر ہونے والے سیمینار میں شرکت پر انسانی حقوق کے کارکن اعتراض کر رہے ہیں۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے "تبدیلی مذہب، مسائل، مباحث و حقیقت" کے عنوان سے منگل کو اسلام آباد میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا عبدالحق عرف میاں مٹھو کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔

میاں مٹھو کا تعلق سندھ کے شہر گھوٹکی سے ہے اور اُنہیں بالائی سندھ میں جبراً مذہب کی تبدیلی اور جبری شادیاں کرانے کے بھی الزامات کا سامنا ہے۔ لیکن وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو یہ جان کر تشویش ہے کہ منگل کو وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا بظاہر مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا مگر اُس میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو بھی مدعو کیا گیا۔

سیمینار میں اس وقت بدنظمی بھی ہوئی جب ایک نو مسلم شخص نے تقریر کرتے ہوئے اپنے سابقہ مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا جس پر تقریب میں موجود منتظمین اور اقلیتی برادری کے افراد نے احتجاج کیا جس کے بعد اسے تقریر کرنے سے روک دیا گیا۔


'ماضی میں تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا گیا'

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ سیمینار کے انعقاد سے ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب اسلام اور آئین پاکستان جبری تبدیلی مذہب کی ہرگز اجازت نہیں دیتا،رضاکارانہ تبدیلی اور جبری تبدیلیٔ مذہب میں فرق ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مذہب کی تبدیلی سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔

اعلامیے کے مطابق سیمینار میں ایسے نو مسلم خواتین و حضرات بھی مدعو تھے جن پر جبری تبدیلی مذہب کے الزامات تھے۔

'جس پر الزام ہے وہ سب الزامات کا جواب دینے کے لیے سامنے آیا تھا'

وزیرِِاعظم کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بہت اچھی تھی کہ اس تقریب میں میاں مٹھو موجود تھےجنہوں نے ایک طرح سے خود کو پیش کیا کہ وہ اپنے اُوپر الزامات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ یہ ایک اچھی بات تھی کہ ایک شخص پر ایک طویل عرصہ سے ایسے الزامات لگے تھے اور ان کا نام ایک معاملہ میں ہمیشہ لیا جاتا تھا اور وہ اس بارے میں اپنی وضاحت دینے کے لیے سب کے سامنے موجود تھے۔

اس موقع پر میاں مٹھو نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب یا جبری شادی اسلام میں جائز ہی نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس عمل کی تعریف ہونی چاہیے، اس پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔

اس سوال پر کہ حکومتی سرپرستی میں میاں مٹھو کو خود پر عائد الزامات کی وضاحت کا موقع دیا گیا؟ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ ڈائیلاگ کیا جاتا ہے، میاں مٹھو کی سندھ میں اہم شخصیٹ ہیں اگر وہ ایسی بات کررہے ہیں کہ جو ریاست بھی چاہتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس فورم میں حکومت نے تمام فریقوں کو بلا کر ایک موقع فراہم کیا کہ وہ غلط فہمیاں دُور کریں اور یہی وجہ ہے کہ اس سیمینار میں تمام مذاہب اور مسالک کے نمائندوں کو بلایا گیا۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی کی شکایات دو سال سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا کوئی بھی معاملہ سامنے آتا ہے تو اس پر فوری ردِعمل دیا جاتا ہے، لیکن اگر پھر بھی اقلیتی برادری سمجھتی ہے کہ اس بارے میں قانون بننا چاہیے تو اس پر بیٹھ کر بات کی جاسکتی ہے۔


'ایسے فیصلے مجمع میں نہیں ہوتے'

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں مٹھو اور مولانا ایوب سرہندی کے ناموں پر اقلیتی برادری کی طرف سے شکایات ہیں،یہ ایک اچھا موقع تھا کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سب کے سامنے بات کر لے۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ اس موقع پر میاں مٹھو نے اعلان بھی کیا کہ اگرکوئی ایک بھی معاملہ میں جبری تبدیلی مذہب ثابت ہوجائے تو میں ذمہ دار ہوں۔ یہ اچھی بات تھی کہ الزامات کے بجائے مکالمہ کی کیفیت پیدا ہوئی۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ ویسے میری تجویز تھی کہ اس موضوع پر اتنے بڑے اجتماع کی ضرورت نہیں تھی بلکہ محدود تعداد میں سنجیدہ افراد کو بلوا کر ایک فکری نشست ہونی چاہیے تھی۔

اس بارے میں قانون سازی کے سوال پر قبلہ ایاز نے کہا کہ ہم نے تجویز دی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر ایسا ایکٹ بنانا چاہیے جو تمام فریقوں کو قبول ہو۔

'ریاست نے ایک شخص کے سامنے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں'

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی لال چند ملہی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنی جس نے جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے ایک ڈرافٹ تیار کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ نے مل کر بنائی تھی جس نے ایک ڈرافٹ بنایا کہ تبدیلی مذہب کا خواہش مند 18 سال سے زائد ہو اور وہ کسی سرکاری مجاز افسر کے سامنے جا کر بیان دے پھر اس کا مذہب تبدیل کیا جائے۔

لال چند ملہی کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو قانون سازی کے عمل میں شامل کیا جاتا، میاں مٹھو جیسی متنازع شخصیت سے رائے لی گئی اور ڈرافٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پوری ریاست ایک شخص کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مذہب خدا اور بندے کا معاملہ ہے اس معاملے میں میاں مٹھو جیسے شخص کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔

'سابقہ مذہب پر تنقید کے لیے کسی کو بلانا درست نہیں'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید نے تقریب میں ہونے والے ایک واقعے کے حوالے سے کہا کہ اس تقریب میں جب ایک مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو تقریر کے لیے بلایا گیا اور اس کو بلانے کے لیے اس کے سابقہ مذہب کا حوالہ دیا گیا تو وہاں موجود لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔

اس بارے میں سبوخ سید نے کہا کہ یہ حساس معاملات ہیں جن پر عوامی سطح پر بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایسے موضوعات سے متعلق تمام فریقوں کو کسی اور حکومتی فورم پر بلا کر الگ سے بات کی جانی چاہیے، عوامی سطح پر ایسی بات ہونے سے ہر فریق ایک مخصوص پوزیشن لے لیتا ہے جس کے بعد ڈائیلاگ کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر وزارتِ مذہبی امور موجود ہے، اسلامی نظریاتی کونسل یا پارلیمان کی کمیٹیاں موجود ہیں جہاں میاں مٹھو سمیت تمام افراد کو اکٹھے بٹھا کر اس پر بات کی جانی چاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے اتفاقِ رائے قائم کرنا چاہیے۔