|
کوئٹہ سے گوادر جانے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے قافلے پر مستونگ کے علاقے میں فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
بی وائی سی کا قافلہ گوادر جلسے میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے جمعے کو روانہ ہوا تھا۔ تاہم ہفتے کو مستونگ کے علاقے میں شرکا کی گاڑیوں پر فائرنگ ہوئی۔
قافلے میں شریک افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے گاڑیوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 10 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
مستونگ کے نواب غوث بخش اسپتال کے مطابق 13 زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے جن میں سے چھ شدید زخمی ہیں جب کہ ڈاکٹر سعید کے مطابق شدید زخمیوں کو کوئٹہ ریفر کر دیا گیا ہے۔
ایس ایس پی مستونگ آفس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے قافلے پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ تاہم مستونگ میں نواب ہوٹل کے قریب فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں کی جانب سے قافلے کو روکنے اور فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
مستونگ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلے پر ایف سی کی مبینہ فائرنگ کے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے متعلق جب وائس آف امریکہ نے ڈپٹی کمشنر مستونگ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
فائرنگ کی تردید
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بی وائی سی کے قافلے پر فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں۔
ترجمان کے مطابق صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کو دانستہ طور پر خرابی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ قانون سے کوئی مبرا نہیں، امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
لاپتا افراد کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہیں کہ جہاں جہاں 'بلوچ راجی مُچی' کے کاروان کو روکا جا رہا ہے، وہاں پر امن طریقے سے دھرنا دے کر پورے بلوچستان کو بند کریں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مستونگ میں قافلے پر حملہ اور دیگر علاقوں میں گرفتاریاں اور تشدد کے تمام واقعات کی ذمہ دار ریاست ہے اور ریاست سے تمام واقعات کا حساب لیا جائے گا۔
ترجمان بلوچستان حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گوادر میں مظاہرے کے در پردہ عزائم واضح ہیں۔ البتہ صوبائی حکومت پُرامن احتجاج کا حق تسلیم کرتی ہے لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی احتجاج کے لیے جگہ کے انتخاب کا انتظامیہ کا حق تسلیم کرے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دے چکے ہیں جب کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی اسمبلی میں پالیسی بیان دیا ہے۔ ایک بار پھر بی وائی سی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سعدیہ بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کو گوادر میں ہونے والے 'بلوچ راج مچی' جلسے میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے جب کہ گوادر میں جلسے سے قبل موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔
سعدیہ بلوچ کے مطابق مختلف علاقوں سے گوادر پہنچنے والے قافلوں کو گوادر کے ڈی چوک پر روک دیا گیا ہے جب کہ بعض افراد جلسہ گاہ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔