بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش: 'پاکستان اپنے مؤقف میں نرمی لایا ہے'

پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے روایتی حریف ملک بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ با معنی بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ بھارت ان امور پر سنجیدگی دکھائے جو دونوں ممالک کے درمیان دوری کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے ایشیا میں روابط و اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق سربراہی اجلاس (سیکا) سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھارت اپنی اقلیتوں، ہمسایہ ملکوں، خطے اور خود اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود ہم بھارت سے خطے میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔

رواں سال اپریل میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف خطے کے مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر زور دیتے آئے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے بھارت کو باضابطہ مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔

پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ بات چیت کا پیغام ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خودمختار حیثیت کے خاتمے کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ ازبکستان کے شہر سمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر شہباز شریف اور نریندر مودی نے ایک چھت تلے ہونے کے باوجود مصافحہ تک نہیں کیا تھا۔

پاکستان کے وزیر ِاعظم کی جانب سے خطے کے ممالک کے اہم فورم پر روایتی حریف ملک کو مذاکرات کی پیش کش کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔


'مذاکرات کی بحالی کے لیے یہ سنہری موقع ہے'

خطے کے امور پر لکھنے والے معروف بھارتی صحافی اور 'کونسل فار انڈین فارن پالیسی' کے چیئرمین ڈاکٹر وی پی ویدک کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی اس پیش کش کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور ان کے بھائی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی متواتر کوششیں کرتے آئے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی قیادت کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی میں ان کے ملک کا کوئی کردار نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں پاکستان کا دہشت گردی میں بھارت سے زیادہ نقصان ہوا ہے لہذا اسلام آباد کو دہشت گردی پر دہلی سے زیادہ مؤثر انداز مین بات کرنی چاہیے جو کہ کم سنائی دیتی ہے۔

ڈاکٹر وی پی ویدک نے کہا کہ یہ ایک سنہری موقع ہے اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کی بحالی کے لیے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے اور دوستی کا ماحول بنانا چاہیے۔

'پاکستان اپنے مؤقف میں نرمی لایا ہے'

بھارت میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار عبدالباسط کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے۔ البتہ اس مرتبہ اسلام آباد نے اپنی پہلے کی پوزیشن میں نرمی پیدا کی ہے جو پانچ اگست کے بھارتی اقدامات کی واپسی سے مشروط تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کے اقدامات کی واپسی کے بجائے سنجیدگی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور سنجیدگی سے کیا مراد ہے اسے کسی طرح بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔


یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت کے ساتھ کسی سطح پر روابط اسی صورت قائم ہوسکیں گے جب نئی دہلی کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اقدامات کو واپس لے گا۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ پاکستان کی بار بار مذاکرات کی پیش کش کو بھارت کمزوری سمجھتا ہے اور اسے بھی رعایت کے طور پر لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی یہ دیرینہ حکمت عملی رہی ہے کہ کشیدگی کو ہوا دی جائے پھر مذاکرات میں الجھایا جائے اور ان مذاکرات سے آج تک کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔

پاکستان کی پیش کش پر بھارت کا ردِعمل

پاکستان کی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی پیش کش پر بھارت کی وزیر مملکت برائے امور خارجہ میناکشی لیکھی نے سیکا کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ معمول کے تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ اسلام آباد سرحد پار دہشت گردی کو روکے۔

ڈاکٹر وی پی ویدک نے کہا کہ بھارت کی وزیر ِمملکت خارجہ کے بیان کے باوجود شہباز شریف کو مذاکرات کی بات کرتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں بھی ایسی مضبوط آوازیں ہیں جو بات چیت سے مسائل کا حل چاہتی ہیں اور وہ اپنا دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اپنے بھارتی ہم منصب سے براہ راست بھی بات چیت کرسکتے ہیں کیوں کہ 2014 میں نریندر مودی ان کے بھائی سے ملنے براہ راست ان کے گھر چلے گئے تھے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی پیش کش پر بھارتی جواب پر رائے دیتے ہوئے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ بھارت نے اس کے جواب میں اپنے پرانے مؤقف کا ہی اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے مؤقف میں نرمی کے باوجود بھارت نے اپنے عوامی سطح پر مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے داخلی حالات کے باعث شاید اس موقع پراس وجہ سے بھی پاکستان سے بات چیت نہیں کرنا چائے گا کہ کشمیر اور گجرات میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔


تاہم عبدالباسط نے کہا کہ بات چیت نہ کرنے کے بیانات کے باوجود گزشتہ سال پاکستان اور بھارت نے فائر بندی کا معاہدہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال مارچ میں پاکستان اور بھارت کی عسکری قیادت نے 2003 کے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا مشترکہ اعلان کیا تھا۔

رواں سال اپریل میں شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے پر بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے انہیں ٹویٹ اور بعد ازاں خط کے ذریعے مبارک باد دی تھی اور کہا تھا کہ بھارت خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تہنیتی پیغام پر بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔

نریندر مودی کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ خطے میں امن و استحکام کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔