پاکستان کے ساحلی علاقوں کو سمندری طوفان بپر جائے کے خطرے کا سامنا ہے اور محکمۂ موسمیات مسلسل اس طوفان کے آگے بڑھنے سے متعلق آگاہ کر رہا ہے۔
سمندر میں طوفان کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر اس کی شدت اسی طرح برقرار رہی تو موسم میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر بھی اس کا اثر دکھائی دے گا۔
محکمۂ موسمیات کی جانب سے ہفتے کو جاری کردہ ایڈوائزری کے مطابق اس وقت طوفان کراچی کے جنوب میں 910 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس کی وجہ سے سندھ اور مکران کے ساحلی علاقوں میں 13 جون کی رات سے 14 جون کی صبح تک گرج چمک کے ساتھ بارش اور تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔
سمندر میں بننے والے طوفان کے لیے بنگلہ دیش نے بپر جائے کا نام تجویز کیا ہے۔ طوفان کے خطرے کے پیشِ نظر کمشنر کراچی اقبال میمن نے سمندر میں ماہی گیری اور نہانے پر دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔
محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں بپر جوائے کی شدت زیادہ ہے جسے کیٹیگری ٹو کی شدت کا قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سائیکلون کے گرد 130 سے 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں اور ایسا طوفان کافی شدت کا ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سردار سرفراز نے بتایا کہ بپر جائے سائیکلون چھ جون کو بنا تھا۔ بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال میں مئی اور جون میں ایسے سائیکلون کا بننا عام بات ہے ۔ ایسے سائیکلون مون سون شروع ہونے سے قبل بنتے رہتے ہیں اور پھر مون سون ختم ہونے کے بعد اکتوبر اور نومبر میں بھی ان کا وجود عمل میں آجاتا ہے۔
SEE ALSO: سمندری طوفانوں کے نام کون رکھتا ہے؟محکمۂ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزی کو وفاقی وزیر برائے موحولیاتی تبدیلی، سینیٹر شیری رحمان نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ بپر جائے کا رخ تبدیل ہونے کے بعد شمال، شمال مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے جو پاکستان کے مکران ساحل کو متاثر کرسکتا ہے۔
طوفان کے نظام میں مسلسل تبدیلی سے اس کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ماہی گیروں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ 12 جون سے کھلے سمندر میں اس وقت تک نہ جائیں جب تک یہ طوفان بحیرہ عرب کے اوپر سے گزر نہ جائے۔
طوفان سےساحلی علاقوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
محکمہ موسمیات کے مطابق بپر جائے کی شدت اس وقت زیادہ ہے۔ جمعے کی رات تک اس کی سمت شمال مغرب کی جانب تھی لیکن اب اگر اس کی سمت شمال یا شمال مٖغرب کی جانب رہتی ہے تو یہ طوفان عمان کی طرف جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ مغربی بلوچستان کی ساحلی پٹی، پسنی، گوادر اور جیوانی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
طوفان کی اگر شدت اسی طرح برقرار رہتی ہے تو اس سے سمندر میں طغیانی بڑھے گی۔ اگر یہ اسی شدت سے کسی ساحل سے ٹکرائے گا تو اس ساحل کے قریب 130 سے 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل سکتی ہیں۔
بپر جائے کا دوسرا اثر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ طوفان کی موجودگی تک تیز بارشیں ہوسکتی ہیں جسے ختم ہونے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ تیسری صورت یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ پانی کا اچھال بڑھتا ہے اور لہریں اونچی ہوجاتی ہیں جس سے ساحل کے آس پاس نشیبی علاقوں میں سیلابی صورتِ حال بھی پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں جسے کوسٹل فلڈنگ کہا جاتا ہے۔ تیز ہواؤں کے سبب بجلی کا نظام متاثر ہوسکتا ہے اور کمزور املاک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کیا کچھ برسوں سے طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہونے لگا ہے؟
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق، مئی، جون اور اکتوبر، نومبر میں دنیا بھر کے سمندرو ں میں بننے والے سائیکلون اب پہلے کی نسبت شدید ہوتے جارہے ہیں۔
ان کے بقول، اٹلانٹک میں ہریکین ہو یا پیسیفک میں ٹائیفون اب ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائیمٹ چینج (آئی پی سی سی) جو ماحولیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، کی تحقیق بتاتی ہے ان طوفانوں کی شدت میں اضافے کی بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سمندروں کے درجہ حرارت میں ا ضافہ ہورہا ہے جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں اب طوفان شدت کے ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں تیز ہوائیں اور بارشیں زیادہ ہورہی ہیں۔
پاکستان کے ساحل سے کتنے طوفان ٹکرائے؟
طوفانوں کے نام رکھنے کا سلسلہ کوئی بہت پرانا نہیں۔ لیکن آج سے تین دہائی قبل 1999 میں سب سے تباہ کن طوفان جسے زیرو ٹو اے تھا جو ٹھٹھہ، بدین کے ساحل سے ٹکرایا تھا۔ اس طوفان کے نتیجے میں کئی ہزار لوگ دربدر اور کئی سو ماہی گیر لاپتا ہوگئے تھے۔
پاکستان کے ساحل کے قریب سے گزرنے والا ایک طوفان 2001 میں آیا تھا جس کے پیشِ نظر سات روز تک ساحلوں کو ہائی الرٹ رکھا گیا اور پھر اس طوفان کا رخ بھارتی گجرات کی جانب مڑ گیا۔اسی طرح 2007 میں 'یمینن' نامی طوفان پسنی اور اوڑمارہ کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا جب کہ کراچی میں بھی طوفان کے باعث مختلف حادثات میں 200 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
سال 2010 میں 'پھیٹ' نامی طوفان عمان سے ٹکرایا تھااور پھر اس کا رخ گوادر کی جانب مڑاجس نے تین سو ملی میٹر سے زائد بارش برسادی تھی۔یہ طوفان کراچی او ر کیٹی بندر کے ساحل سے گزرا تھا تب وہ طوفان ایک ڈپریشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔
اسی طرح2014 میں 'نیلوفر' نامی طوفان کےپاکستان کے ساحل سے ٹکرانے کی خبریں تھیں لیکن یہ طوفان عمان کے ساحل تک جا پہنچا تھا۔ 2021 میں گلاب نامی طوفان آیاتھا اس کی بھی موجودگی کے سبب کراچی کو ہیٹ ویو کا سامنا رہا تھا تاہم وہ بھی کراچی کے ساحل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔