سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے کراچی کے مختلف نالوں پر قائم تجاوزات ہٹانے کے عمل سے متاثرہ خاندانوں کے گھروں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم دینے کی استدعا کی ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دائر تین الگ الگ درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو اورنگی اور گجرنالے کے متاثرین کی بحالی کے لیے فوری طور پر 10 ارب روپے درکار ہیں اور اس کے لیے وسائل کم ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت بحریہ ٹاؤن کیس سے ملنے والی رقم کو متاثرین کی بحالی پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔
صوبائی حکومت نے گجر اور اورنگی نالوں کے کناروں سے تجاوزات کے خاتمے کے باعث بے گھر ہونے والے تمام 6500 خاندانوں کو 80 مربع گز کے پلاٹ الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن سے جو پیسے ملیں گے ان سے گجر نالہ کے بے گھر افراد کے لیے استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ افراد بہت غریب ہیں لہٰذا وہ اپنے مکانات کی تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے بقول یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس وسائل نہیں تھے۔ لہٰذا وہ نالوں کے پشتوں کے ساتھ ہی آباد ہو گئے اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس 80 مربع گز مکان تعمیر کرنے کے کوئی وسائل نہیں ہوں گے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کے بقول سپریم کورٹ سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والی رقم سے ساڑھے تین ارب روپے فراہم کریں تاکہ متاثرین کے لیے گھروں اور سڑکوں کی تعمیرکے لیے رقم جاری کی جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح سندھ حکومت نے ایک اور درخواست میں کہا کہ بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والی مزید رقم بھی جاری کی جائے جس سے کراچی کے ضلع ملیر میں شاہ لطیف ٹاؤن اور تیسر ٹاؤن سمیت ملیر میں رہائشی سوسائٹیز میں ترقیاتی کام کرائے جائیں۔
درخواست کے مطابق اس رقم سے علاقے کی ترقی کے لیے پانی، سیوریج، سڑکوں اور برساتی پانی کے نالوں سمیت بڑی تعداد میں ترقیاتی اسکیمیں شروع کی جائیں گی۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کو فنڈز کی کمی در پیش ہے۔ بحریہ ٹاؤن سے وصول کی جانے والی رقم ضلع ملیر میں ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کے لیے حکومت سندھ کو دی جا سکتی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر تیسری درخواست میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر واقع مختلف اضلاع جیسے بدین، میرپور خاص، سانگھڑ اور دیگر میں جب کبھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو سیلاب آتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ محکمۂ آب پاشی نے 2013 میں لیفٹ بینک ایریا سے بارش کے پانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے نکاسی آب کی ایک اسکیم تیار کی تھی البتہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسکیم کو پورے زور و شور سے شروع نہیں کیا گیا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان تمام اسکیموں پر لگ بھگ 10 ارب روپے لاگت آئے گی۔ ان کے مطابق ہفتے کی صبح تین درخواستوں کے ذریعے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن سے وصول ہونے والے 10 ارب روپے ان اسکیموں کے لیے دیں تاکہ انہیں بروقت مکمل کیا جا سکے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اگر سپریم کورٹ مانیٹرنگ کے لیے جج مقرر کرے یا مذکورہ اسکیموں پر عمل درآمد کی خود نگرانی کرے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں سپریم کورٹ نے زمینوں کی خریداری میں بدانتظامی سامنے آنے کے بعد 460 ارب روپے کا بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔ جو کہ نجی ہاؤسنگ اسکیم کو قسط وار جمع کرانا ہے۔
یہ رقم بحریہ ٹاؤن کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانی تھی جس کے بعد اس رقم کو خرچ کرنے کے لیے 11 رکنی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت نے اس رقم کے خرچ کے لیے کمیشن بنانے کی مخالفت کی تھی اور مؤقف اپنایا تھا کہ یہ رقم سندھ کی ہے اس لیے صوبائی انتظامیہ ہی کو اس کے خرچ کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔