انسانی حقوق کمشن (ایچ آر سی پی) نے رواں سال کراچی میں ہونے والی اربن فلڈنگ پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی میں بارشوں کی تباہی کی اصل وجہ فیصلہ سازی میں قانون کی عمل داری نہ ہونا اور احتساب کے عمل کی کمی ہے۔
کمشن کے مطابق شہر کے مسائل کا بنیادی حل ایک مرکزی اور با اختیار اتھارٹی کے قیام میں پوشیدہ ہے جس کے سامنے شہر میں تمام 19 لینڈ مینجمنٹ ادارے جواب دہ ہوں۔
کمشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پالیسی سازی بالخصوص تجاوزات کے خاتمہ سے متعلق منصوبوں میں غریب طبقے سے تعصب کے عنصر کو ختم کیا جائے۔
کمشن کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارشیں اکثر تباہی لے کر آتی ہیں لیکن اس بار تباہی کا پیمانہ اس قدر وسیع تھا کہ اس نے شہر کے پوش علاقوں کو بھی متاثر کیا۔ یہ علاقے اب تک بڑی حد تک محفوظ رہے تھے۔ اس لیے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ شدید بارشوں نے شہر کے تباہ حال انفراسٹرکچر اور طرز حکمرانی کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔
بند نالے اور کچرے کے مسائل
کمشن نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ شہر میں جب بھی بارشیں ہوتی ہیں تو نالوں میں کچرے اور گندگی کے ڈھیر کی صفائی سے متعلق شور ہوتا ہے۔
معروف آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر عارف حسن کے مطابق یہ مسئلہ صرف نالوں کی صفائی سے جُڑا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ اگر نالے صاف ہوں تو بھی مسئلہ باقی برقرار رہے گا۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک برساتی نالوں سے سیوریج کا نظام الگ نہیں کیا جاتا۔ نالوں سے کچرا صاف کرنے کے باوجود بھی نالے ایک ہفتے میں دوبارہ بند ہو جائیں گے۔
عارف حسن کے خیال میں سمندر میں گرنے والے بڑے نالوں کو پہلے صاف کیا جائے۔ محمود آباد نالہ جو گزری کریک میں گرتا ہے۔ اس نالے کے آؤٹ فال پر ڈی ایچ اے فیز سات کے پلاٹ بنا دیے گئے ہیں جس سے نالے کا سائز کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔
ان کے بقول اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس نالے میں سیوریج کا پانی تو گزر سکتا ہے لیکن بارش کا پانی اور خاص طور پر شدید بارشوں میں آنے والا پانی اس سے گزر کر سمندر میں نہیں پہنچ سکتا۔
ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ شدید بارشوں سے پانی سمندر میں جانے کے بجائے اوپر آتا ہے اور اس سے محمود آباد، چینسر گوٹھ، پی ای سی ایچ ایس اور ملحقہ علاقے ڈوب جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح مائی کولاچی بائی پاس اور کے پی ٹی آفیسرز کالونی نے سولجر بازار نالہ، ریلوے کالونی نالہ اور دیگر نالے بند کر رکھے ہیں جس سے صدر اور ضلع جنوبی کے کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے۔
کمشن کے مطابق کئی آرکیٹیکٹ 2013 میں قتل کی جانے والی سماجی کارکن اور آرکیٹیکٹ پروین رحمٰن کی اس بات کو دوہراتے ہیں جس میں انہوں نے مائی کولاچی بائی پاس کی تعمیر سے شہر میں سیلاب کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
اسی طرح کراچی اربن لیب کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین حسن کے مطابق گزشتہ 40 سال کے دوران بلڈرز، بلدیاتی اداروں، صوبائی محکموں اور وفاقی اداروں نے من مانے انداز سے اور بغیر کسی احتساب کے خوف سے پلاننگ کی بنیادی ہدایات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے تعمیرات کیں جس کا خیمازہ شہر کو تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
کمشن کی رپورٹ میں کئی ماہرین نے اس بات پر بھی خدشات کا اظہار کیا ہے کہ تربیت یافتہ افرادی قوت کے بغیر شہری حکومت کو چلانا ناممکن ہے۔ ان لوگوں میں بہتر انجینئرز، ڈیزائنرز، ٹاؤن پلانرز، ٹرانسپورٹ پلانرز اور ٹریفک انجینئرز کی کمی ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کے خیال میں بہتر تربیت یافتہ افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کے طاقت ور ترین میئرز نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال بھی اپنے منصوبوں پر مکمل عمل درآمد میں ناکام رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے تعینات کیے گئے کنسلٹنٹس شہر کو نہیں چلا سکتے۔ کیوں کہ ان کا کام بہت قلیل مدت کے لیے ہوتا ہے۔ جب کہ شہر کے بگڑے ہوئے حلیے کو بہتر بنانا ایک طویل المعیاد منصوبہ ہے جس میں کئی برس بلکہ دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
بااختیار مقامی حکومت کی عدم موجودگی اور منقسم لینڈ مینجمنٹ کے مسائل
کمشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی کے مسائل وراثتی طور پر سیاسی رہے ہیں۔ لیکن رپورٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آخر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے قانونی طور پر ذمہ دار اتھارٹی کون سی ہے۔ شہر میں مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومت کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود ایک دوسرے سے ملتی ہیں یا کئی علاقوں میں ان اداروں کا کنٹرول ایک دوسرے پر بھی ہے۔
کمشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق جب سپریم کورٹ بھی شہر کی ترقی سے متعلق مداخلت کرتی ہے تو یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
کمشن کا کہنا ہے کہ یہاں اختیارات کو مرتکز کرنے اور انہیں نچلی سطح پر منتقل کرنے کی خواہشات پر ایک سیاسی کھینچا تانی چل رہی ہے۔
کمشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا شہر جس میں 19 لینڈ کنٹرول مینجمنٹ اتھارٹیز ہوں۔ وہاں معاملات اور بھی گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اتھارٹیز اپنے علاقوں میں پلاننگ کے لیے مختلف قسم کے اختیارات رکھتی ہیں۔ ان کے معیارات مختلف ہیں۔ بائی لاز میں فرق اور پھر مفادات کا ٹکراؤ بھی اس میں حائل ہوتا ہے۔ جب کہ ان 19 اتھارٹیز میں آپس میں کوئی باہمی رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے شہر کے مسائل اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کمشن کی رپورٹ میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے با اختیار، فعال اور منتخب بلدیاتی حکومت کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ با اختیار اور ایک میٹرو پولیٹن کارپوریشن ان مسائل کا بہترین حل ہے۔ مقامی سطح سے پیدا ہونے والے ٹیکسز مقامی حکومتوں ہی کو ملنے چاہیئں۔ مقامی حکومت کو با اختیار بنانے میں اصل رکاوٹ اختیارات کا صوبائی سطح پر مرتکز ہونے یا تمام اختیارات کا نچلی سطح پر مرتکز کرنے سے متعلق دو بیانیوں کی لڑائی ہے۔ اس کے حل کے لیے ماہرین کے خیال میں ملکی آئین کے آرٹیکل 140 کی تشریح کرنا ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں کو ملنے والی رقم نچلی سطح تک نہ پہنچنے کی ایک وجہ بدعنوانی بھی ہے۔
عارف حسن کے بقول شہر کے حوالے سے پالیسی بنانے میں سب سے بڑا عیب غریبوں کے خلاف بغض ہے۔ ان کے خیال میں اس بغض کے باعث کوئی منصوبہ ممکن نہیں۔
'ذرائع ابلاغ پر غلط بیانیے فروغ دیے جاتے ہیں'
کمشن کی رپورٹ میں اس نکتے کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے کہ میڈیا پر غلط بیانیے فروغ دیے جاتے ہیں اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد مذموم مقاصد کے حصول کے ساتھ جمہوری اور مساوی حل کے راستے روکنا ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح کا یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ رواں سال کراچی میں اربن فلڈنگ قدرتی عنصر تھا یا انسانی ہاتھوں کی تباہی کا شاخسانہ تھا؟
ماہرین کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سال شدید بارش ہوئی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہوا ہو۔ لیکن کراچی اربن لیب کی ڈائریکٹر اور آئی بی اے میں پروفیسر ڈاکٹر نوشین ایچ انور کے بقول اگر شہر کے ماحولیات اور زمین کے نظام کا خیال رکھا جاتا اور اس کے ندی نالوں کے نظام کو ٹھیک رکھا جاتا تو اس تباہی کے اثرات کو کم کیا جا سکتا تھا۔
انسانی حقوق کمشن کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں نے ایک بار پھر کراچی کے مسائل کے انبار کو اجاگر کیا ہے۔ اور اب شہر کے حقیقی مسائل کی شناخت کرنا لازم ہو چکا ہے۔ تا کہ ان کا حل تلاش کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے منتخب نمائندوں کو پالیسی ایکسپرٹس اور متاثرین کی رائے سننا ہو گی۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے سفارشات اور تجاویز مستقل بنیادوں پر بھیجی جاتی رہی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ ان کے عمل درآمد میں حائل رکاوٹوں کا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن نے کیا سفارشات مرتب کی ہیں؟
کمشن کی جانب سے پیش کردہ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ منفرد سیاسی جغرافیے میں کراچی میں چوں کہ مختلف اداروں کی حدود ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس لیے کراچی ڈویلپمنٹ پلان 2000 کے تحت ایک با اختیار اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے جو حتمی فیصلے کر سکے اور یہ تمام 19 لینڈ مینجمنٹ اتھارٹیز اس ایک ادارے کے سامنے جواب دہ ہوں۔
اسی طرح ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو با اختیار مقامی حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے قبل کراچی میں لینڈ مینجمنٹ اتھارٹیز کی حدود کے باہمی مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو ایک انتظامیہ کے تحت رکھا جائے۔ اور اسے اسی طرح کے اختیارات دیے جائیں جیسے 18ویں ترمیم اور ساتویں نیشنل فنانس کمشن میں صوبوں کو دیے گئے تھے۔
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ان اختیارات کے تحت مقامی حکومتوں کو مقامی ٹیکسز کے نفاذ کا اختیار ہونا چاہیے جس میں آکٹرائے ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس، پارکنگ فیس اور بل بورڈز فیس وغیرہ شامل ہو۔ لوکل ٹیکسز سے ہونے والی آمدنی کو شہری حکومت، ٹاؤنز، یونین کونسلز اور آخر کار وارڈز تک تقیسم کیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی طرح شہری حکومت کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے افراد کی مناسب تربیت بھی ضروری ہے جس کے بغیر شہری حکومت کو چلانا ممکن نہیں۔ اسی طرح آئین میں مقامی حکومتوں سے متعلق ایک آرٹیکل کی بجائے اس سے متعلق پورا باب آئین میں متعارف کرایا جائے۔ کیوں کہ یہ صرف کراچی ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کی ضرورت ہے۔
مضافاتی علاقوں کے مسائل بھی حل کرنے کی اشد ضرورت
سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ مضافاتی علاقوں کے مسائل کو بھی حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ماہرین کے بقول تجاوزات کے خاتمے کی مہمات میں شہر میں رہائش پذیر غریب، کم آمدنی والے طبقے اور غیر رسمی کاروبار سے منسلک افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے عدم مساوات اور غربت مزید بڑھتی ہے۔
کمشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی کراچی میں آبادی کے سرکاری تخمینے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس وقت شہر کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ شہر کے انفراسٹرکچر اور خدمات کے شعبوں میں پائے جانے والی بے شمار خامیوں کو دور کرنے کے لیے اس کی درست آبادی کا تعین ضروری ہے۔ تاکہ اس مقصد کے لیے مناسب وسائل مہیا کیے جا سکیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ کراچی کے نالے کچرے اور تجاوزات کے باعث سکڑ چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آزاد ماہرین کی ٹیم سے سروے کرانے کی ضرورت ہے۔ کئی مقامات پر نالوں پر ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے ڈی ایچ اے، کے پی ٹی آفیسرز ہاوسنگ سوسائٹی اور پرائیویٹ بلڈرز نے قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن جب بھی کراچی میں سیلاب آتا ہے تو بات گجر نالے اور لیاری ندی ہی کی کی جاتی ہے جہاں غریب لوگوں نے تجاوزات قائم کر رکھی ہیں۔
ماہرین کے خیال میں غریبوں سے بغض کی یہ پالیسی اب ختم ہونی چاہیے۔ شہر میں جہاں جہاں اور جس جس نے تجاوزات قائم کی ہیں اس کا فوری سروے کرنے کی ضرورت ہے۔ سروے مکمل کیے جانے کے بعد ایک مکمل ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کی تجاوزات کا خاتمہ کر کے بلاک کیے گئے نالوں کو کھولا جا سکے۔
کمشن کی سفارشات کے مطابق شہر میں سیوریج سسٹم کو ترقی دینے اور اس کو مختلف مراحل میں مکمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے اور اسے ایک سسٹم کے تحت چلانے کی بے حد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ تاکہ اس سے پیسے کمانے کے ساتھ ملازمت کے مواقع بھی پیدا کیے جا سکیں۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نوشین انور نے ایچ آر سی پی کی رپورٹ کو مفصل اور بہت کار آمد قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں نے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے بہت کم خرچ کیا ہے۔ اور جب انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس انفراسٹرکچر کو بنانے کے بعد اس کی مرمت اور دیکھ بھال بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر نوشین انور کے بقول جیسے گھر کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح شہر کے انفراسٹرکچر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس بنیادی چیز کا خیال نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی جیسا کوئی بھی بڑا شہر فعال مقامی حکومت کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں تو اب تک یہ ہی طے نہیں ہو سکا کہ آخر کراچی کی آبادی کتنی ہے۔ یہاں کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کچھ اور تعداد بتا رہے ہیں۔ جب کہ مردم شماری کرنے والے ادارے کچھ اور تعداد بتا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی مشینری کی زمین پر موجود حقائق کی سمجھ بوجھ ہی بہت کم دکھائی دیتی ہے اور اس میں اہم چیز بنیادی اعداد و شمار کی عدم موجودگی بھی ہے۔
ڈاکٹر نوشین احمد کے بقول حالیہ اربن فلڈنگ کی وجوہات اگرچہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر بنیادی طور پر اس کی وجہ انفراسٹرکچر کا شدید بریک ڈاؤن تھا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ شہر اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ انتظامیہ کی اس شہر کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ کراچی کی بہتری کے لیے بہت سے لوگ اچھی نیت تو رکھتے ہیں مگر اس میں بڑا مسئلہ ان کی ان مسائل کے حل میں مہارت اور اس سے بھی بڑا مسئلہ بیوروکریسی کی مخصوص ذہنیت بھی ہے۔
کراچی بارشوں سے کس قسم کی تباہی کا شکار ہوا تھا؟
جولائی اور پھر اگست میں شدید بارشوں سے ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کے مرکز اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں زندگی کا پہیہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔
بارشوں میں کم از کم 20 افراد حادثات اور کرنٹ سے ہلاک ہوئے تھے۔
شدید بارشوں کے باعث کاروباری سرگرمیاں معطل ہو گئی تھیں جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔
رواں سال 27 اگست کو کراچی میں صرف 12 گھنٹوں کے دوران 223 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو اب تک کی ریکارڈ کردہ بارش میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جب کہ اگست میں شہر میں 484 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی تھی جو اوسط بارشوں سے 10 گنا زیادہ تھی۔ اس دوران شہر کی بڑی شاہراہیں ڈوب گئی تھیں۔
شدید بارشوں کے باعث شہر کے کئی علاقوں میں طویل دورانیے تک بجلی کی فراہمی بند رہی تھی۔ بہت سے علاقوں میں 5 سے 6 روز تک بجلی کی فراہمی منقطع رہی۔ کئی علاقوں میں بجلی اس لیے بند رکھی گئی تا کہ کرنٹ لگنے کے واقعات نہ ہوں۔
اسی طرح لینڈ لائن فون اور موبائل فون نیٹ ورک بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔ جب کہ بارشوں سے کئی کچی آبادیوں میں لوگوں کے گھر بھی تباہ ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال میں انتظامیہ نے 29 اگست کو شہر کے تمام اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا تھا۔
شہر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ضلع ملیر اور ضلع شرقی میں تھے۔