حکومتِ پاکستان نے سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کو گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ انسدادِ بدعنوانی کے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) نے قومی خزانے کو لوٹنے والے بدعنوان عناصر سے وصول کیے گئے 821 ارب روپے میں سے محض ساڑھے چھ ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد یہ معاملہ سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔
سینیٹ کی خزانہ کمیٹی نے سرکاری خزانے میں محض ساڑھے چھ ارب روپے جمع کرانے پر سوالات اٹھائے ہیں جب کہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وصول کردہ رقم کا فرانزک آڈٹ کیا جانا چاہیے تاکہ اصل صورتِ حال واضح ہو سکے۔
وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کو بتایا کہ نیب کی جانب سے ریکور کی گئی رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی اور نہ ہی وزارت کے پاس اس بارے میں معلومات ہیں۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ ادارے کے قیام سے اب تک اس نے بدعنوان عناصر سے مجموعی طور پر 821 ارب روپے وصول کیے ہیں۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی دستیاب دستاویزات کے مطابق نیب نے 2006 سے ستمبر 2021 تک محض چھ ارب 21 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے ہیں۔
سینیٹ کی خزانہ کمیٹی میں جب اس بارے میں استفسار کیا گیا تو وزارتِ خزانہ کے حکام کا کہنا تھا کہ وہ نیب سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ وصول کیے گئے 821 ارب روپے کہاں ہیں۔
سینیٹ کی خزانہ کمیٹی نے اس بارے میں تحقیقات اور تفصیلات کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور نیب کے آڈیٹر کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ہے۔
'نیب نے ابہام دور نہ کیا تو تحقیقات کا کہیں گے'
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے رکن مصدق ملک کہتے ہیں کہ کمیٹی کے لیے یہ حیرت انگیز بات تھی جب وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ نیب کی 821 ارب روپے کی مجموعی وصولی میں سے محض چھ ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان یہ بتانے سے قاصر تھا کہ قومی خزانے میں جمع کرائے گئے چھ ارب روپے کے علاوہ بقیہ 815 ارب روپے کہاں ہیں۔
مصدق ملک کہتے ہیں کہ ایک بہت بڑا ابہام پیدا ہو چکا ہے جسے دور کرنے کے لیے آئندہ اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور نیب کے آڈیٹر کو بلوایا گیا ہے اور حکومت سے بھی معلوم کیا گیا ہے کہ 821 ارب میں سے بقیہ 815 ارب روپے کہاں ہیں۔
ان کے بقول نیب کو یہ ابہام دور کرنا چاہیے بصورتِ دیگر سینیٹ کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔
SEE ALSO: نیب آرڈیننس میں مزید ترامیم، 'یہ حکومتی شخصیات کے لیے این آر او ہے'پارلیمانی امور کے صحافی عمر حیات بتاتے ہیں کہ خزانہ کمیٹی کے اجلاس میں نیب کے حوالے سے ایجنڈا سلیم مانڈوی والا کے اصرار پر لایا گیا جب کہ گزشتہ اجلاس میں اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر سلیم مانڈوی والا کی چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود کے ساتھ تکرار بھی ہوئی تھی۔
مصدق ملک کے مطابق سلیم مانڈی والا نے کہا تھا کہ اگر نیب سے متعلق ان کے سوالات ایجنڈے پر نہ لائے گئے تو ان کا کمیٹی کا رکن رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
'نیب نے کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے زیادہ اعداد و شمار پیش کیے'
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر اعداد و شمار پیش کر رہا ہے۔
نیب قوانین کے ماہر وکیل ایڈوکیٹ عمران شفیق کہتے ہیں کہ وزارتِ خزانہ کی جانب سے محض چھ ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کے بیان پر نیب کو اعداد و شمار کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ نیب دانستہ طور پر اعداد و شمار کو بڑھا کر اپنی کارگردگی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے جس سے صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومتی رہنما بھی گمراہ ہو جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول "نیب اپنی وصولیوں میں عدالتی جرمانے، بینکوں کے ڈیفالٹرز اور ہاؤسز سوسائٹیز کی عوام سے دھوکہ دہی کے کیسز میں حاصل کی گئی رقم بھی اپنے کھاتے میں ڈالتا ہے۔ اس کے برعکس نیب کو صرف سرکاری سطح پر ہونے والی بدعنوانی کی رقوم کی واپسی کے لیے بنایا گیا تھا۔"
عمران شفیق نے کہا کہ نیب کی میگا کرپشن کیسز اور عدالتوں کے ذریعے حاصل کی گئی رقوم کی شرح مجموعی وصولیوں سے بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ براڈ شیٹ جیسے مقدمات میں احتساب ادارے کو ہونے والے جرمانے نیب کی جانب سے وصول کی گئی مجموعی رقم سے زائد ہے۔
'نیب کی وصولیوں کو جاننا وقت طلب کام نہیں'
نیب کی دستاویزات کے مطابق احتساب بیورو نے 821 ارب روپے کی وصولیاں آٹھ مختلف مدات میں کی ہیں۔ ان میں پلی بارگین اور والنٹری ریٹرن (رضا کارانہ طور پر واپسی) کی مد میں 76 ارب روپے وصول کیے گئے جب کہ بینکوں کے قرضوں کے نادہندگان سے 121 ارب روپے حاصل کیے گئے۔
اسی طرح وہ قرضے جو اسٹیٹ بینک نے ری اسٹرکچرنگ یا ری شیڈول کیے اس مد میں 59 ارب روپے، پنجاب کوآپریٹو بورڈ لمیٹڈ (پی سی بی ایل) کے مقدمے میں 16 ارب روپے کی ریکوری ہوئی اور عدالت کی طرف سے عائد جرمانے کی مد میں 45 ارب روپے وصول پائے گئے۔
اس کے علاوہ سب سے بڑی رقم 'ان ڈائریکٹ' طریقے سے 500 ارب روپے کی وصولیاں کی گئی ہیں۔
سابق ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان ارشاد کلیمی کہتے ہیں کہ یہ جاننا بہت مشکل یا دقت طلب کام نہیں کہ نیب نے اب تک جو رقوم وصول کیں وہ مجموعی طور پر کتنی ہے اور کہاں ہے۔
ان کے بقول احتساب ادارے کی فراہم کردہ تفصیلات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سی وصولیاں جو غالباً نیب کے توسط سے ہوئیں وہ نیب کی بجائے متعلقہ اداروں کے ہیڈ آف اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی ہیں۔
SEE ALSO: نیب آرڈیننس: 'منی لانڈرنگ اور فراڈ کے مقدمات اب تیزی سے نمٹائے جا سکیں گے'وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ارشاد کلیمی نے کہا کہ حکومت پاکستان کے دو ہی اکاؤنٹس ہیں اور ان دونوں اکاؤنٹس کو مختلف ہیڈ آف اکاؤنٹس کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے جن کے ذریعے رقم جمع کی جاتی ہے یا وزارتِ خزانہ مختلف محکموں کو ان کے ہیڈ آف اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن وصولیوں کا دعویٰ نیب کر رہا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ وصولیاں نیب کی بجائے دیگر ہیڈ آف اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی ہوں۔
ارشاد کلیمی کے مطابق یہ کوئی گھمبیر مسئلہ نہیں۔ نیب کے ڈائریکٹر جنرل اکاؤنٹس کے پاس مکمل معلومات ہونی چاہئیں جو کہ اس تمام ابہام کو دور کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر نیب اس ابہام کو دور نہیں کرتا تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی دستورِ پاکستان کی دفعہ 67 کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو لکھ چکی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری پوری کریں۔
اس بارے میں وضاحت کے لیے جب نیب ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تفصیلات بتانے سے معذرت ظاہر کی۔ البتہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نیب سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں 821 ارب روپے کی وصولیوں کی تفصیلات سے آگاہ کرے گا۔