پانچ سال قبل سوڈان کے جامع امن سمجھوتے پر دستخط ہوئے اور مسلمان اور عرب آبادی والے شمالی علاقے اور غیر مسلم اور غیر عرب جنوبی علاقے کے درمیان خانہ جنگی ختم ہوئی۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں گذشتہ اپریل میں قومی انتخابات ہوئے اور اس مہینے ریفرینڈم ہو گا جس میں یہ طے ہوگا کہ کیا جنوبی سوڈان آزاد ہو جائے گا۔
بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سوڈان میں دو عشروں سے جاری خانہ جنگی جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک اور چالیس لاکھ بے گھر ہوئے، جامع امن سمجھوتے کی بدولت ختم ہوئی۔ اس منصوبے پر جسے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل تھی 2005ء میں جوبا میں قائم جنوبی سوڈان کے پیپلز لبریشن موومنٹ اور حکمران نیشنل کانگریس پارٹی نے دستخط کیے تھے۔
دوسری چیزوں کے علاوہ جامع امن سمجھوتے میں جنوب سے شمال کی فوجوں کی واپسی، قومی انتخابات، مردم شماری، اور تیل کی آمدنی کی تقسیم کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سمجھوتے میں اختیارات کی تقسیم کے لیے بھی کہا گیا تھا اورجنوبی سوڈان کی آزادی کے سوال پر ریفرینڈم کا ٹائم ٹیبل مقرر کیا گیا تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جامع امن سمجھوتے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ برطانیہ میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر پیٹروڈورڈ کہتے ہیں کہ ’’دونوں فریقوں نے جامع امن سمجھوتے کو اپنے اختلافات کے حل کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے جنگ بندی کے سمجھوتے کی طرح سمجھا ہے۔ بجائے اسکے کہ وہ قومی اتحاد کی حکومت بنانے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آتے انھوں نے اپنے الگ الگ راستے منتخب کر لیئے ہیں اور ان کے درمیان تعلقات خاصے خراب رہے ہیں‘‘۔
مبصرین کہتے ہیں کہ جامع امن سمجھوتے سے اتحاد کو فروغ نہ ملنے کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سمجھوتے میں صرف دو بڑی پارٹیوں، نیشنل کانگریس پارٹی اور سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور دوسرے سیاسی گروپوں اور علاقوں جیسے دارفر کی مغربی ریاست کے مسائل کو مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔
داخلی طور پر بے گھر ہونے والے بہت سے لوگوں کی آبادکاری نہیں کی گئی ہے اور ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کے لیے کمیشن قائم نہیں کیا ہے۔
Ezekiel Lol Gatkuouth واشنگٹن میں جنوبی سوڈان کی حکومت کے مشن کے سربراہ ہیں۔ ان کا اس بارےمیں کہنا ہے کہ’’ہم سوڈان کو سب لوگوں کے لیے بہتر جگہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال سے شرعی قانون نافذ ہے۔ عورتوں کو ان کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے اور اگر وہ نامناسب لباس پہنیں تو انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ سوڈان اکٹھا نہیں رہ سکا ہے۔ اب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہم پُر امن طریقے سے علیحدہ ہو جائیں تا کہ ہم امن سے رہ سکیں‘‘۔
ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت جنوب کے لوگوں کے لیے 30 فیصد ملازمتیں مختص کرنے اور زمین کی ملکیت کے قانون اور تنازعات کے فیصلے کے قانون میں اصلاح نہیں کر سکی ہے۔ اس نے تیل کی دولت سے مالا مال ابیائی کے علاقے کے ساتھ ساتھ شمال اور جنوب کے درمیان سرحدی جھگڑے بھی طے نہیں کیے ہیں۔
سوڈان کے بارے میں اقتصادی اور سیاسی مشیر Elmoiz Abunura کہتے ہیں کہ دونوں فریقوں نے تمام سپاہیوں کو غیر مسلح نہیں کیا ہے اور ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ملیشاؤں کی حمایت جاری ہے۔ جنو ب میں پیپلز لبریشن موومنٹ یا مقامی ملیشیاؤں کے سپاہی موجود ہیں۔
لندن میں قائم کیتھم ہاؤس’’ Chatham House‘‘ کے محقق راجرمڈلٹون کہتے ہیں کہ اقتصادی ترقی کے لیے امداد بہت سست رفتاری سے آئی ہے۔ جامع امن سمجھوتے کے تحت ایک یونٹی فنڈ قائم کیا گیا تھا جس میں تیل کی آمدنی سے پیسہ آنا تھا اور پھر یہ پیسہ ایسے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا جس سے اتحاد کو فروغ ملتا۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ آپ کو بتائیں گے کہ اس فنڈ کے تحت بیشتر کام ابھی چند مہینے پہلے ہی شروع ہوا ہے ۔ اس طرح سڑکیں، ریلوے، اسکول اور ہسپتال بنانے اور یہ دکھانے کا موقع ضائع کر دیا گیا کہ سوڈان کے متحد رہنے کے کیا فائدے ہو سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین اس بات پر نظر رکھیں گے کہ کیا جامع امن سمجھوتے کے تعاون اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے اعلیٰ مقاصد، خاص طور سے شمال اور جنوب کی بر سرِ اقتدار پارٹیوں اور ان کے سیاسی مخالفین کے درمیان جنوری کے ریفرینڈم کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔