سوشل میڈیا کی اس دنیا میں آپ کی پوسٹس فنگر پرنٹس کا کام دیتی ہیں یعنی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آپ کی سرگرمیوں سے آپ کی شناخت آسانی کی جا سکتی ہے۔
جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تحقیقاتی ادارے بھی کسی ملزم کی تلاش کے لیے سوشل میڈیا کو کھنگالتے ہیں اور کسی پر شک ہونے کی صورت میں اس کی سوشل میڈیا پروفائلز سے اس شخص کی دلچسپی اور رجحانات کا اندازہ لگالیتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے کیا جسے خفیہ دستاویزات لیک کرنے والے مشتبہ شخص تک پہنچنے تک زیادہ وقت نہیں لگا۔
ایف بی آئی نے جمعرات کو ریاست میسا چوسٹس میں کارروائی کرتے ہوئے ایئر نیشنل گارڈ کے 21 سالہ اہلکار جیک ٹیکشیرا کو خفیہ دستاویزات لیک کرنے کے معاملے میں گرفتار کیا ہے۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے مطابق ٹیکشیرا پر قومی سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات افشا کرنے کا الزام عائد کیا جائے گا۔
تحقیقاتی حکام کا خیال ہے کہ مشتبہ شخص نے آن لائن چیٹ گروپس میں انتہائی خفیہ نوعیت کی دستاویزات پوسٹ کی تھیں جس کی وجہ سے امریکہ کےحساس قومی رازوں کے تحفظ کی اہلیت پر سوالات پیدا ہوئے ہیں۔
لیک ہونے والی دستاویزات میں یوکرین کی جنگ سمیت امریکہ کے قومی سلامتی کے دیگر اہم معاملات سے متعلق انتہائی کلاسیفائیڈ معلومات شامل ہیں۔
SEE ALSO: کلاسیفائیڈ دستاویزات لیک کیس: میسا چوسٹس سے21 سالہ ایئرنیشنل گارڈ گرفتارتحقیقاتی حکام کو ٹیکشیرا پر اس وقت شک ہوا جب ان کی جانب سے 'ڈسکورڈ' نامی سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ کردہ مواد کا جائزہ لیا گیا۔ اس پلیٹ فارم پر ٹیکشیرا کئی برسوں سے امریکہ کے رازوں میں دلچسپی لے رہے تھے جب کہ وہ بندوقوں، گیمز اور اپنی پسندیدہ میمز کو تواتر کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق تحقیقاتی ویب سائٹ 'بیلنگ کیٹ' اور نیویارک ٹائمز نے پہلی بار عوامی سطح پر ٹیکشیرا کی شناخت کی تھی جب کہ وفاقی حکام نے تصدیق کی کہ ٹیکشیرا تحقیقاتی عمل میں 'سبجیکٹ آف انٹرسٹ' ہے۔ یعنی ادارے کو ٹیکشیرا پر شک ہے۔
اکیس سالہ مشتبہ شخص کے بارے میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ بطور نیشنل ایئر گارڈ اس کی ذمے داریوں کے دوران اسے انتہائی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل تھی۔
امریکی ایئر نیشنل گارڈ کی 102 انٹیلی جینس ونگ کی ایک فیس بک پوسٹ کے مطابق ٹیکشیرا ایئر فورس انٹیلی جنس یونٹ میں ایئرمین تھے۔
اے پی کے مطابق حکام کا بتانا ہے کہ ٹیکشیرا سائبر ٹرانسپورٹ سسٹم کے ماہر تھے۔ اس اعتبار سے فوجی کمیونی کیشن نیٹ ورک میں ایک ایک آئی ٹی اسپیشلسٹ کی اہم ذمے داری ہوتی ہے۔ اس عہدے کے لیے ٹیکشیرا کی اعلیٰ سطح پر سیکیورٹی کلیئرنس ہو چکی تھی اس لیے انہیں فوجی نیٹ ورک تک رسائی اور اس کی حفاظت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
نیشنل گارڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ٹیکشیرا سے متعلق ہونے والی تحقیقات سے آگاہ ہیں اور اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کم عمر سروس میمبر کی حساس معلومات تک کس طرح رسائی ممکن ہوئی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹرک ریڈار کہتے ہیں یہ فوج کا اندرونی عمل ہے کہ اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرنے والے کسی نوجوان افسر کو اہم نوعیت کی ذمے داری سونپ دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بڑی ذمے داری کے ساتھ اپنے نوجوان اہلکاروں پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان نوجوان فوجی اہلکاروں کے بارے میں سوچیں جو بھرپور ذمے داری اور بھروسے کے ساتھ میدانِ جنگ میں دستوں کی کمان کرتے ہیں۔
'دراصل OG ہی ٹیکشیرا ہے'
اے پی کے مطابق 'ٹھگ شیکر سینٹرل' نامی آن لائن چیٹ گروپ میں لگ بھگ دو درجن افراد شامل ہیں جو اپنی پسندیدہ بندوقوں کے علاوہ میمز اور جوکس شیئر کرتے ہیں۔ اس گروپ میں شامل افراد جنگوں پر بھی بات چیت کرتے تھے جس میں روس کا یوکرین پر حملہ بھی شامل ہے۔
اس گروپ میں ٹیکشیرا سمیت کئی افراد برسوں سے چیزیں شیئر کر رہے تھے۔
اے پی کے مطابق اس سے قبل چیٹ گروپ کے ایک رکن نے امریکی خفیہ دستاویزات لیک کرنے والے شخص کی شناخت 'او جی' کے نام سے کرائی تھی۔
گروپ میں بات چیت کرنے والے ایک رکن نے اے پی کو بتایا ہے کہ 'او جی' دراصل ٹیکشیرا ہی تھا جو مسیحیت کا پیروکار تھا اور چیٹ گروپ میں اکثر خدا اور عبادت کی بات کرتا تھا۔
رکن نے مزید بتایا کہ ٹیکشیرا امریکی حکومت کی کئی ترجیحات کی مخالفت اور فوج پر تنقید کرتا تھا اور "ایسا اس وقت سے ہو رہا تھا جب سے امیر سیاست دان معاملات چلا رہے ہیں۔
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ جمعرات کو ان کی ٹیکشیرا سے بات نہیں ہوئی تھی لیکن اس سے قبل وہ ان سے رابطے میں رہا تھا اور ٹیکشیرا نے کہا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ ایف بی آئی انہیں ڈھونڈ رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے خفیہ دستاویزات سے متعلق خبر شائع کی تھی تو اس کے بعد گروپ کے ارکان نے ویڈیو کال کی جس سے 'او جی' نے بھی بات کی۔او جی نے کہا کہ مجھے معاف کر دیں، میری دعا تھی کہ ایسا کبھی نہ ہوتا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔