کہا جاتا ہے کہ شام کی سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ دستے Jisr al-Shughour کے قصبے کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حکومت کے بیان کے مطابق مسلح جتھوں نے سرکاری فورسز پر گھات لگا کر چھاپہ مارا تھا اور 120 سپاہیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن علاقے کے بعض عینی شاہدین نے سرکاری اطلاعات کی تردید کی ہے اور کہا ہے ہلاک ہونے والوں میں بعض ایسے سپاہی شامل تھے جنھوں نے احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ انھیں حکومت کے وفادار سپاہیوں نے ہلاک کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ریسرچر ندیم حوری کہتے ہیں کہ ان رپورٹوں کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ Jisr al-Shughour باقی دنیا سے کٹا رہا ہے اور یہاں سے جو لوگ فرار ہو کر ترکی پہنچے ہیں، ان تک رسائی مشکل ہے ۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کی نظیر موجود ہے۔’’دوسرے شہروں میں، مثلاً جنوب مشرقی شام میں،درا میں ہم نے جو کچھ دیکھا ہے، اسکی بنیاد پر ہم جانتے ہیں کہ بعض سپاہی منحرف ہو ئے ہیں اور ان پر سکیورٹی فورسز نے گولی چلائی ہے ۔‘‘
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بعض سپاہیوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہو کہ حکومت کے بیانات کے برعکس، احتجاج کرنے والے عام لوگ ہیں، وہ دہشت گرد اور ٹھگ نہیں ۔
جدہ، سعودی عرب میں گلف ریسرچ سینٹر کے چیئر مین عبدالعزیز ساغر کہتے ہیں’’حکومت نے لوگوں کو تاریکی میں رکھا اور انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ سکیورٹی فورسز براہ راست بے قصور لوگوں اور پُر امن مظاہرین کو کچلنے میں مصروف ہیں جو اپنے جائز مطالبات کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ حکومت کس طرح ان پر ظلم کر رہی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض سپاہیوں کے منحرف ہونے میں یہ ایک اہم عنصر ہو۔‘‘
عام سپاہیوں کے لیئے احتجاج کرنے والے لوگ بالکل ان ہی کی طرح ہیں۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے لے کر کم آمدنی والے خاندانوں سے ہے۔ ان کا سنی مسلمانوں کی آبادی والے ملک کی شیعہ علویہ قیادت سے کوئی تعلق نہیں۔
تجزیہ کار ساغر کے مطابق، ملک پر حکمران اسد خاندان کے آہنی شکنجے کی گرفت کمزور ہونے کی اصل وجہ موجودہ نسل ہے جس کی قیادت صدر بشر الاسد کے پاس ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر کے والد، حافظ الاسد نے جبر و استبداد کے ساتھ ساتھ، سنیوں بلکہ عیسائیوں تک کو عرب قوم پرستی کے نام پر بعث پارٹی کے جھنڈے تلے متحد کر لیا تھا۔ لیکن اس خاندان کی موجودہ نسل کو صرف ظلم و جبر سے کام لینا پڑا ہے۔ لیکن ساغر کے مطابق طاقت کا استعمال کس حد تک کیا جائے، اس بارے میں خاندان کے اندر کافی پریشانی اور اختلافات موجود ہیں۔
’’اسد خاندان کے بعض لوگ اصلاحات کے حق میں ہیں۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اصلاحات سے حالات اور زیادہ خراب ہو جائیں گے کیوں کہ لوگ اور زیادہ رعایتیں مانگیں گے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ طاقت کا استعمال بہتر رہے گا ۔ لیکن یہ دونوں جانتے ہیں کہ بالآخر وہ گھاٹے میں رہیں گے۔‘‘
شام میں حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کے باوجود احتجاج جاری ہیں۔ انسانی حقوق کے مبصرین کا خیال ہے کہ گذشتہ تین مہینوں کے دوران تقریباً 1,300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسد خاندان نے تمام طریقے آزما لیے ہیں اور وہ عوامی احتجاج ختم نہیں کر سکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ریسرچر ندیم حوری کہتے ہیں’’حکومت نے اپنی کارروائیوں کے لیئے جو پیمانہ استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو حکومت کے خلاف احتجاج کر رہا ہے، یا کوئی بھی جو حکومت کی مکمل حمایت نہیں کرتا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔‘‘
اس قسم کا سخت طریقہ استعمال کرنے میں خطرہ یہ ہے کہ اس سے حکومت کی مخالفت میں اضافہ ہوتا ہے ، حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز کے سپاہیوں کے حکومت کا ساتھ چھوڑ جانے سے اسی رجحان کا اظہار ہوتا ہے۔