ہفتے کو شام کے ہزاروں باشندے اُن 44 افراد کی نماز ِجنازہ میں شرکت کے لیےاکٹھے ہوئے، جو ایک روز قبل دارلحکومت میں ہونے والے دو خودکش دھماکوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
تابوت، جِن پر شامی پرچم لپٹے ہوئے تھے، دمشق کی ایک مسجد کے اندر رکھے ہوئے تھے، جب کہ باہر لوگوں کی بھیڑ جمع تھی جو ملک کے سیاہ، سرخ اور سفید پٹیوں والے جھنڈے لہرا رہے تھے۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے خبر دی ہے کہ جمعے کو علی الصبح دو عدد ریاستی سکیورٹي تنصیبات پر ہونے والےخودکش حملوں میں دو حملہ آوروں نے اسلحے سےبھری گاڑیاں استعمال کیں۔ اِن خودکش حملوں میں تقریباً 150افراد زخمی ہوئے۔
سرکاری خبررساں ادارے صنعا نے دھماکوں کا الزام القاعدہ پر عائد کیا ، تاہم مخالفین نےدعویٰ کیا ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت اِس کی ذمہ دار ہے۔
مارچ میں شروع ہونے والی حکومت مخالف بغاوت کے دوران اب تک ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔
یہ بم حملےعرب لیگ کے پیشگی وفد کی شام میں آمد سےچند ہی گھنٹے بعد ہوئے۔ لیگ ایک مبصر مشن تشکیل دے رہا ہے جِس کا مقصد اِس بات کا جائزہ لینا ہے، آیا حکومت منحرفین کے خلاف پُر تشدد کارروائی بند کرنے کے اپنے وعدے کا پاس رکھتی ہے۔
جوں جوں شام میں ہنگامہ آرائی کی صورتِ حال بدتر ہو رہی ہے، مخالفین کو دبانے کےلیے مسٹر اسد کی مہلک کریک ڈاؤن کو روکنے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششیں معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔
جمعے کے روز روس نے سلامتی کونسل میں ایک نظرثانی شدہ مسودہٴ قرارداد جمع کرائی۔
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر وِٹالی چرکن نے کونسل پر زور دیا کہ جلد از جلد اقدام کیا جائے، تاہم، اُنھوں نے کونسل کے مغربی ارکان کی طرف سےتجویز کردہ تعزیرات کی توثیق کرنے سےایک بار پھر انکار کیا۔