شام نےاپنے شہر جسر الشغور پر حکومتی فورسز کے کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے ترکی فرار ہوجانے والے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ وطن واپس آجائیں۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جسرالشغور اور اس کے نواحی علاقوں میں "امن و امان" بحال کردیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ واپس آنے والے پناہ گزینوں کو طبی اور غذائی امداد کی فراہمی سمیت ’’تمام ضروریات‘‘ کو پورا کیا جائے گا۔
ترکی کی حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران آٹھ ہزار کے لگ بھگ شامی باشندے سرحد عبور کرکے ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔
دریں اثناء شامی فوجی دستے جسرالشغور سے 40 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع 'مراعت النعمان ' نامی قصبہ میں موجود ہیں جہاں حکام کے بقول "ایک مختصر فوجی کارروائی" کی گئی ہے۔
چند عینی شاہدین نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی افواج صوبہ اِدلِب سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو روک رہی ہیں جبکہ فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنے والے افراد پر فائرنگ بھی کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق جسرالشغور سے مشرق کی سمت واقع قصبہ 'اریحہ' کے چھ رہائشی باشندے فائرنگ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک 1300 سے زائد شہری اور 340 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
بدھ کے روز دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہزاروں افراد نے حکومت کی حمایت میں ریلی کا انعقاد کیا۔ شرکا نے2 کلومیٹرسے زائد طویل ایک قومی پرچم اور شامی صدر کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں اور ان کی حمایت میں نعرے بازی کر رہے تھے۔
ادھر ترکی کی طرف سے شام کی سرحد کے ساتھ مزید پناہ گزین کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔ ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے منگل کے روز شامی صدر سے فون پر میں ان پر زور دیا کہ وہ "طاقت کے استعمال سے گریز اور بحران کے خاتمے" کے لیے اقدامات کریں۔
بدھ کے روز شامی صدر کے خصوصی نمائندہ حسن ترکمانی بھی ترکی روانہ ہوئے ہیں جہاں وہ بحران سے متعلق وزیرِاعظم اردگان سے ملاقات کریں گے۔
حالیہ دنوں کے دوران شامی سکیورٹی فورسز نے جسرالشغور اور اس کے نزدیکی دیہاتوں میں کارروائی کرکے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا ہے جن پرسکیورٹی فورسز کے 120 اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ لیکن مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد عام شہری اور سکیورٹی کے وہ اہلکار تھے جنہوں نے لوگوں پر گولی چلانے سے انکا ر کیا تھا اور فورسز نے ان پر فائرنگ کردی تھی۔
ترکی پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کے بقول شامی فوجی دستے دیہاتوں کی تلاشی کے دوران 18 سے 40 برس کی عمر کے مردوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ کئی دیگر افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاہ وردیوں میں ملبوس افراد کی جانب سے کھیتوں میں گیسولین کا چھڑکاؤ کرکے زرعی زمینوں کو بنجر بنایا جارہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران ان پرتشدد کارروائیوں میں شام کی پشت پناہی کررہا ہے۔ ہلری کلنٹن کے بقول ایران نے ایسی ہی کارروائیاں اپنے ہاں 2009 میں ہونے والے متنازع انتخابات کے دوران بھی کی تھیں جس میں محمود احمدی نژاد دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے۔
حکومت کی جانب سے شام میں بیشتر غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے باعث واقعات کی تصدیق دشوار ہے۔