|
ویب ڈیسک — بشار الاسد حکومت کے مخالف باغیوں نے شام کے سب سے بڑے شہر حلب پر قبضے کے بعد جنوب کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔
باغیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو بشار الاسد اور ان کی فوج کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔
شام میں باغیوں نے تیز رفتار پیش قدمی ایسے وقت میں کی ہے جب شامی حکومت کے بڑے اتحادی ایران اور روس دونوں خود بھی تنازعات اور جنگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
شامی فوج نے اتوار کو باغیوں کے اچانک حملے کے بعد انہیں حلب پر قبضے کے بعد شمال میں حماہ کی جانب پیش قدمی سے روکنے کے لیے فوری کمک پہنچائی ہے۔
’ہیئت تحریر الشام‘ کی قیادت میں باغیوں نے ہفتے کو حلب پر قبضے اور حماہ میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
باغی کمانڈر کرنل حسن عبدالغنی نے بتایا تھا کہ ان کے جنگجو حلب کے انڈسٹریل سٹی اور فوجی اکیڈمی پر قبضہ کرچکے ہیں۔
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اتوار کو شام کے دار الحکومت دمشق پہنچے ہیں۔
روانگی سے قبل تہران ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایران شامی حکومت اور فوج کی مدد جاری رکھے گا۔
ادھر شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی فورسز نے گزشتہ تین روز کے دوران ایک ہزار سے زائد باغیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
شام کے محکمۂ شہری دفاع یا وائٹ ہلیمٹس نامی تنظیم نے بتایا ہے کہ شامی فورسز نے باغیوں کے گڑھ سمجھے جانے والے شہر ادلب پر ہفتے کی رات بمباری کی تھی جس میں چار سویلین ہلاک اور 54 زخمی ہوگئے تھے۔
شام کے سرکاری خبر رساں ادارے ’سانا‘ کے مطابق شامی فوج نے رات گئے کارروائیوں میں شورش پسندوں کو حماہ صوبے کے شمالی جانب دھکیل دیا ہے۔
برطانیہ میں قائم وار مانیٹر سرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق حکومت نے خطے حماہ میں مضبوط دفاعی لائن بنائی ہے۔
شامی خبر رساں ادارے کے مطابق ادلب اور دیگر علاقوں میں روس اور شامی فضائیہ نے باغیوں پر فضائی حملے بھی کیے ہیں اور یہ سلسلہ اتوار کو بھی جاری رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ فضائی حملے وسطی ادلب کے گنجان آباد علاقوں میں کیے گئے ہیں۔
ادلب ترکیہ کی سرحد کے نزدیک واقع شامی باغیوں کا سب مضبوط گڑھ ہے۔
SEE ALSO: شام میں باغیوں کی حلب شہر پر چڑھائی، متعدد فوجی ہلاکباغیوں کے حملے شروع ہونے کے بعد ہفتے کی شب جاری کیے گئے اپنے بیان میں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ملک کے استحکام اور جغرافیائی سالمیت کے لیے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں سے بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شام باغیوں کو شکست دینے کے لیے تیار ہے اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان حملوں کی شدت کیا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خلاف 2011 میں شروع ہونے والے احتجاج اور مسلح بغاوت کے آغاز کے بعد حلب کو اہمیت حاصل رہی ہے۔
سال 2016 میں حلب کے کنٹرول کے بشار الاسد اور باغیوں کے درمیان لڑائی بہت اہم تھی۔ ابتدائی طور پر حلب میں شامی حکومت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم بعض ازاں بشار الاسد حلب کا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔
حلب اسٹیریجک اہمیت کا حامل مرکزی شہر ہے جو بشار الاسد کے کنٹرول میں ہے جب کہ اپوزیشن کے دھڑے اور ان کے غیر ملکی حامیوں کے پاس دور دراز علاقوں کا کنٹرول ہے۔
رپورٹس کے مطابق اتوار کو حلب کے زیادہ ترے علاقے سنسان اور بازار بند رہے جب کہ شہری گھروں میں محسور رہے۔
عینی شاہدین کے مطابق بڑی تعداد میں مکین حلب سے نقل مکانی بھی کر رہے ہیں۔
شامی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حلب سے پسپا ہونے والی فورسز باغیوں پر جوابی حملے کے لیے منظم ہورہی ہیں اور انہیں کمک پہنچائی جارہی ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔