|
افغانستان کے طالبان نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کو بحران سے دوچار ملک پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس ماہ ہونے والے بین الاقوامی اجلاس سے قبل "خیالات کو داغدار کرنے" کی کوشش قرار دیا ہے۔
طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو اپنی حکومت اور عالمی برادری کے درمیان "تعمیری اور مثبت روابط" کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا ردعمل افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کے بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جنہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے "خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کا انداز" شدت اختیار کر گیا ہے۔
بینیٹ نے منگل کو اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں اپنی ایک سخت رپورٹ پیش کی تھی۔ جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔
SEE ALSO: افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ: 'خواتین پر پابندیاں جرائم کے زمرے میں آتی ہیں'اقوام متحدہ کے ماہر نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان کے مبینہ 'جرائم' کی مذمت کی تھی۔ مجاہد نے کہا، "اقوام متحدہ کے کچھ ارکان، اور خاص طور پر رچرڈ بینیٹ کی رپورٹ، دوحہ کے آئندہ اجلاس سے قبل تاثر کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "بدقسمتی سے، اقوام متحدہ کے اندر بعض افراد مسلسل افغانستان کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چند محدود مسائل کے مقابلے میں (وہاں) اہم پیش رفت کو چھپا رہے ہیں۔"
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 30 جون کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان پر بین الاقوامی سفیروں کی دو روزہ کانفرنس بلائی ہے۔
گتریس کی جانب سے ایک سال قبل اس عمل کا آغاز کرنے کے بعد، طالبان پہلی بار اس اجلاس میں شرکت کریں گے جس کی میزبانی خلیجی ریاست کی جانب سے کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے زیر قیادت مذاکرات کا مقصد افغان حکومت کے ساتھ انگیجمینٹ کے لیے ایک مربوط اور متحد عالمی نقطہ نظر تشکیل دینا ہے، جسے ابھی تک دنیا نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ اجلاس: افغان رولنگ کلاس خواتین کے حقوق کی بات مغربی نکتہ نظر سےنہیں کریگی۔تجزیہ کارطالبان نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں دوحہ کے تیسرے اجلاس میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
بینیٹ نے منگل کو کہا کہ یہ ضروری ہے کہ افغان سول سوسائٹی، بشمول خواتین اور انسانی حقوق کے علمبردار بامعنی طور پر دوحہ کے تیسرے اجلاس میں شرکت کریں اور خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو براہ راست اور موضوعاتی بات چیت کے اندر حل کیا جائے۔
طالبان حکومت کے ترجمان مجاہد نے بدھ کو کہا، "امید ہے کہ حقیقت کو سمجھا جائے گا، اور ایک تعمیری موقف اپنایا جائے گا۔"
انسانی حقوق کی تنظیموں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف "جرائم" کے لیے طالبان کو جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے انہیں دوحہ اجلاس میں مدعو کرنے پر اقوام متحدہ پر تنقید کی ہے۔۔
انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ دوحہ کے گزشتہ دو اجلاسوں کے برعکس افغان سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اس بار طالبان کے دباؤ کی وجہ سے آنے والے اجلاس میں شرکت سے روکا جائے گا۔
اقوام متحدہ کا موقف
منگل کو اقوام متحدہ نائب ترجمان فرحان حق نے تیسری دوحہ کانفرنس میں طالبان کو مدعو کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ڈی فیکٹو حکومت کے نمائندوں کے ساتھ کوئی سیشن ہوگا۔۔
حق نے نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس کو بتایا، "اس مرحلے پر، کانفرنس کے انتظامات اب بھی جاری ہیں۔"
حق سے سوال کیا گیا کہ کیا اقوام متحدہ بینیٹ کے مشورے پر عمل کرے گی کہ طالبان کو ایک جائز حکومت نہ مانا جائے یا انہیں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگوں میں اپنی شرائط عائد کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
انہوں نے کہا "یہ ایک اہم تشویش ہے، اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغان معاشرے میں خواتین کے صحیح کردار کا احترام کیا جائے، جیسا کہ دنیا میں ہر جگہ ہونے کی ضرورت ہے۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اقوام متحدہ بینیٹ کے اس مطالبے کی حمایت کریگی جو طالبان کی جانب سے "صنفی امتیاز "کو انسانیت کے منافی جرم قرار دینے سے متعلق ہے۔
حق نے وضاحت کی کہ میں صرف اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ان کے ساتھ ڈی فیکٹو حکام کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ افغانستان کی تسلیم شدہ حکومت کی حیثیت سے سلوک نہیں کیا جاتا۔"
گوتریس نے مئی 2023 میں طالبان کو دوحہ کے پہلے اجلاس میں مدعو نہیں کیا تھا، اور اگست 2021 سے افغانستان پر قابض طالبان کی حکومت نے فروری میں ہونے والے دوسرے اجلاس میں اس وقت تک شامل ہونے سے انکار کر دیا جب تک کہ ان کے مندوبین کو افغانستان کے واحد نمائندے کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے اتوار کو اعلان کیا کہ اس نے اقوام متحدہ کے ساتھ دو ماہ کی بات چیت کے بعد دوحہ کے تیسرے اجلاس میں اپنا وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اگر ایجنڈے اور شرکت میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے، تو یہ قدرتی طور پر ہمارے فیصلے کو متاثر کرے گی، جسے ہم اس وقت تمام فریقین کے ساتھ شیئر کریں گے۔"
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔