طالبان نے روس کے انٹیلی جنس یونٹ کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے عوض جنگجوؤں کو انعام دینے کی خبروں کی تردید کی ہے۔
پیر کو ایک ٹوئٹ میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے بتایا کہ طالبان کے چیف مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر نے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں افغان امن عمل سمیت قیدیوں کے تبادلے پر مشاورت کی گئی۔
اُنہوں نے کہا کہ دورانِ گفتگو ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے معاہدے پر قائم ہیں۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان یہ رابطہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ روس کی خفیہ ایجنسی نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے عوض طالبان جنگجوؤں کو انعام دینے کی پیش کش کی تھی۔
ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، مورگن آرٹیگس نے کہا ہے کہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے پیر کو وزیر خارجہ پومپیو نے طالبان کے چیف مذاکرات کار ملا برادر کے ساتھ امریکہ طالبان سمجھوتے پر عمل درآمد کے معاملے پر گفتگو کی۔
اپنی ٹوئٹ میں محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ طالبان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں گے، جس میں امریکیوں پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ مذکورہ بریفنگ ملنے کے باوجود اُنہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا جب کہ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُنہیں یا کسی اور اعلٰی حکومتی عہدے دار کو ایسی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔
البتہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ غیر مصدقہ اطلاعات تھیں لہذٰا صدر کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین نے مزید بتایا کہ پومپیو اور ملا غنی برادر نے بین الافغان مذاکرات اور پانچ ہزار طالبان جنگجوؤں کی رہائی کے معاملات پر بھی تبادلۂ خیال کیا ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے معاملہ التوا کا شکار ہے۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اب تک چار ہزار کے لگ بھگ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے تاکہ بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔
سہیل شاہین کے مطابق ملا عبدالغنی برادر سے ٹیلی فونک گفتگو میں مائیک پومپیو نے تسلیم کیا کہ معاہدے کے تحت طالبان نے بڑے شہروں اور فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کیے لیکن اُنہیں مجموعی طور پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
طالبان کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغانستان میں تشدد کے واقعات کم ہوئے تھے۔ لیکن افغان حکام کے مطابق چند ہفتوں سے ان حملوں میں مزید تیزی آئی ہے۔
طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ معاہدے کے تحت وہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملے نہ کرنے کے پابند ہیں۔ البتہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھیں گے۔
خیال رہے کہ رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ ختم ہونے کے امکانات روشن ہو گئے تھے۔
لیکن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات تاحال شروع نہ ہونے سے امن معاہدے پر سوالیہ نشان لگ گئے تھے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں۔ زلمے خلیل زاد پیر کو ازبکستان پہنچے ہیں جب کہ وہ دوحہ اور اسلام آباد بھی آئیں گے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ امریکی حکام کو افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ہے۔ طاہر خان کے بقول اب ان واقعات میں عام افغان شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں جب کہ طالبان اور افغان حکومت ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کر رہے۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے حالیہ بیانات میں مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تشدد میں کمی کی جائے اور افغان حکومت اور طالبان قیدیوں کا تبادلہ مکمل کریں۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ کو تشویش ہے کہ اگر تشدد میں کمی نہ ہوئی تو بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
طاہر خان کے بقول اس تناظر میں مائیک پومپیو اور ملا برادر کے درمیان ہونے والی گفتگو اہم ہے کیوں کہ افغان حکومت بعض طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار نظر نہیں آتی ہے جو سنگین حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کا اصرار ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں اسی صورت میں شریک ہوں گے جب ان کے تمام قیدیوں کر دیا جائے گا۔