افغانستان میں طالبان کی حکومت کے مقرر کردہ عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری حکومت کو عملی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے کیوں کہ کابل میں مختلف ممالک کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے جمعے کو اسلام آباد اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ میں اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان اپنی حکومت سے بین الاقوامی برادری کی توقعات سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد وہ اپنی قیادت کو آگاہ کریں گے لیکن سیاسی معاملات کو انسانی امداد سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے۔
امیر خان متقی کے بقول بین الاقوامی برادری جن اصلاحات کی توقع رکھتی ہے وہ باہمی تعاون سے ہی ممکن ہیں، لیکن طالبان حکومت پر دباؤ سے یہ ممکن نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ان کے بقول ایک لحاظ سے عملی طور پر طالبان کی حکومت کو قبول کر لیا گیا ہے کیوں کہ کابل میں مختلف ملکوں کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں جب کہ افغان سفارت کار بھی دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔
انہوں ںے توقع ظاہر کی کہ جلد ہی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر بھی تسلیم کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رواں برس اگست میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا کے کسی ملک نے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: ٹرائیکا پلس اجلاس: افغانستان اقتصادی تباہی کے دہانے پر ہے، پاکستان کا انتباہپاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات کا خیر مقدم
امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں پاکستان کی حکومت اور کالعدم شدت پسند گروپ تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے بات چیت کا یہ عمل فریقین کے درمیان تنازع کے حل تک جاری رہے گا۔
اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں کوئی عسکریت پسند گروپ کسی دوسرے ملک کے مفادات کے خلاف سرگرم نہیں ہے۔
طالبان وزیرِ خارجہ متقی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے طالبان سے ایک جامع حکومت کے قیام کے ساتھ تمام بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے رابطے ختم کرنے اور افغانستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی روک تھام کے مطالبات کیے تھے۔
’تمام افغان قومیتوں کو نمائندگی دی ہے‘
طالبان حکومت سے عالمی سطح پر افغانستان میں جامع حکومت کے مطالبات سے متعلق امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ طالبان کی عبوری حکومت میں تمام افغان قومیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔
ان کے بقول حکومت میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر برادریوں کے نمائندگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت میں پنج شیر، ہلمند، مزارِشریف اور دیگر علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔
’خواتین کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے وسائل نہیں‘
جمعرات کو اسلام آباد میں ٹرائیکا پلس کے سفارت کاروں کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں طالبان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
SEE ALSO: طالبان کے وزیرِ خارجہ کا پہلا دورۂ پاکستان، تجارت اور سرحدی اُمور ایجنڈے میں شاملاس بارے میں طالبان کے وزیرِ خارجہ متقی کا کہنا تھا کہ حکومت نے لڑکیوں کے اسکول کھولے ہیں البتہ ان کی تعلیم جاری رکھنے اور تنخواہیں ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
امیر خان متقی نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ افغانستان میں خواتین کی نقل و حرکت اور سماجی و معاشرتی سرگرمیوں پر کوئی پابندی عائد ہے۔
ان کے بقول خوتین کے لیے تمام سماجی و معاشرتی سرگرمیوں میں شمولیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ عالمی سطح پر خواتین اور انسانی حقوق سے متعلق طالبان کے طرزِ عمل پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
امیر خان متقی نے کہا کہ صحت کے محکمے میں کام کرنے والی 100 فی صد خواتین اپنے کام پر واپس آ چکی ہیں، جب کہ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی 75 فی صد خواتین کارکن بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’امداد کم ہے‘
طالبان وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ وہ امریکی اور یورپی یونین کے سفارت کاروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں انھیں آگاہ کر چکے ہیں کہ جو اقتصادی امداد وہ ہمیں فراہم کر رہے ہیں وہ بہت کم ہے۔ جب کہ ہماری حکومت پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور ہمارے اثاثے بھی منجمد کر رکھے ہیں ۔
'امریکہ سے کوئی مخاصمت نہیں ‘
امیر خان متقی نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کہا کہ طالبان عسکری طور پر امریکہ کے مخالف نہیں ہیں۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کے آسانی سے انخلا میں طالبان نے مدد کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی امریکہ سے کوئی مخاصمت نہیں ہے اس لیے طالبان پر پابندیاں عائد کرنے اور افغانستان کے اثاثے منجمند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں تک رسائی کی اجازت دیں تاکہ افغانستان کو درپیش اقتصادی مشکلات میں یہ اثاثے افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکیں۔