افغانستان میں اقتدار میں آنے کے لگ بھگ دو ماہ بعد درالحکومت کابل میں طالبان نے پہلی بار عوامی اجتماع کا انعقاد کیا ہے۔
خبر ساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کابل کے نواح میں ایک کھلے میدان میں ہونے والے اجتماع میں صرف مردوں نے شرکت کی۔ بعض مبصرین نے اس جلسے کو طالبان کی اپنے لیے عوامی حمایت ظاہر کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔
اجتماع میں شرکا کے بیٹھنے کے لیے قطاروں میں کرسیاں لگائی گئی تھیں جب کہ طالبان کے مسلح افراد جگہ جگہ متعین نظر آ رہے تھے۔
جلسے کے شرکا اپنے ہاتھوں میں جھنڈے یا کتبے بھی تھامے ہوئے تھے جس پر طالبان کی حمایت میں نعرے درج تھے۔
جلسہ گاہ میں جب لوگوں کی آمد شروع ہوئی تو اس وقت اسپیکرز سے طالبان کی کامیابی کے ترانے چلائے گئے۔ ان ترانوں میں غیر ملکی افواج کی شکست کا بھی ذکر کیا جا رہا تھا۔
کابل میں بم دھماکہ
دارالحکومت کابل میں عید گاہ مسجد کے مرکزی دروازے پر بم دھماکے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عید گاہ مسجد میں طالبان کے ترجمان اور عبوری نائب وزیر برائے اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال کے بعد تعزیتی اجتماع منقعد کیا گیا تھا۔ ان کی والدہ کا انتقال چند روز قبل ہوا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس میں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد دارالحکومت میں یہ دوسرا بڑا دھماکہ ہے۔ قبل ازیں 26 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے پر اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا جب غیر ملکی افواج کے انخلا کی تکمیل اور عام شہریوں کو افغانستان سے منتقل کرنے کا آپریشن جاری تھا۔
اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 182 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
اتوار کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی۔
دوسری جانب اٹلی کے اشتراک سے چلانے والے درالحکومت کے ایک اسپتال کی غیر سرکاری تنظیم ’ایمرجنسی‘ نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ چار زخمیوں کو شعبہ ہنگامی امداد میں لایا گیا ہے۔
دوسری جانب افغان جرنلسٹس یونین نے اتوار کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق سابقہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں نے یا تو کام بند کر دیا ہے یا پھر انہیں اپنے آپریشنز جاری رکھنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق افغان یونین آف جرنلسٹس نے یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر جاری کی جب جلال آباد میں ایک صحافی سید معروف سعادات کو تین دیگر افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق ایک کار میں سوار سید معروف سعادات کو ایک رکشے میں موجود مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔ فائرنگ سے ان کا بیٹا بھی زخمی ہوا۔
ذرائع کے مطابق کار میں ان کے ساتھ موجود دیگر دو افراد طالبان تھے جو کہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
ان پر حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بھی گروہ یا افراد نے قبول نہیں کی۔
سید معروف سعادات ذرائع ابلاغ کے کئی مقامی اداروں سے وابستہ رہے تھے جب کہ انہوں نے شہری تعمیر و ترقی کی وزارت میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔
رواں ہفتے ہی خبر رساں اداروں کو طالبان نے خطوط ارسال کیے تھے جن میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ میڈیا میں طالبان کو کس نام سے پکارا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خطوط میں میڈیا اداروں سے کہا گیا تھا کہ طالبان کو ان کے سرکاری نام ’امارت اسلامی افغانستان‘ سے پکارا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ نوجوانوں کو ملک چھوڑنے کی مبینہ حوصلہ افزائی سے باز رہے اور اسلام کے سوا کسی بھی اور مذہب کی مبینہ طور پر ترویج نہ کرے۔
یہ خطوط 25 ستمبر کو ملک کے بڑے میڈیا اداروں کو ارسال کیے گئے تھے۔ ان پر طالبان کے اطلاعات اور ثقافت کے عبوری ڈپٹی وزیر ذبیح اللہ مجاہد کے دستخط تھے۔
علاوہ ازیں افغانستان میں طالبان کی حکومت نے بغیر دستاویزات کی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
وزارتِ دفاع کے جاری کردہ ایک اعلان کے مطابق افغانستان کے سابقہ حکام سے طالبان نے جو گاڑیاں حاصل کی تھیں ان میں سے بعض طالبان کی اماراتِ اسلامی افغانستان کو واپس نہیں لوٹائی گئیں۔
بیان کے مطابق بعض افراد ان گاڑیوں کی فروخت کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے بغیر دستاویزات کی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ میں بعض مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے حاصل کیا گیا ہے۔