افغانستان کے ایران کی سرحد کے ساتھ واقع جنوب مشرقی صوبے نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج پر جمعے کو طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس صوبے کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔
صوبے کے نائب گورنر حاجی نبی براہوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی۔ انھوں نے بتایا کہ طالبان نے شہر کو زیر کر لیا ہے، جب کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے صوبہ نمروز کے ضلع دلارام کی جانب پسپائی اختیار کر لی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے پانچ سال بھی کسی بھی صوبے پر اپنا کنٹرول قائم کیا ہے۔ 2016 میں طالبان کچھ وقت کے لیے صوبہ قندوز کے دارالحکومت پر قابض ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا قبضہ ختم کرا لیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق نمروز کے نائب گورنر حاجی نبی براہوی کا کہنا تھا کہ طالبان نے گورنر کے دفتر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ افغان سیکیورٹی فورسز پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ حکومتی افواج کی ایک گھنٹے تک طالبان کے ساتھ لڑائی جاری رہی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی افواج کو صرف چہار برجک ضلعے کا کنٹرول حاصل ہے۔
انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں یا پسپائی اختیار کر لی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت طالبان کا صوبے کے پانچ میں سے تین اضلاع پر کنٹرول ہے۔
طالبان کا اسپن بولدک کی سرحد بند کرنے کا اعلان
اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغان طالبان نے پاکستان سے متصل اہم سرحدی گزرگاہ چمن-اسپن بولدک کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے دارالحکومت کابل میں افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
طالبان کی جانب سے قندھار کے لیے مقرر کیے گئے گورنر حاجی وفا کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مہاجر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے سے روکنے کے اقدام کے ردِ عمل میں سرحدی گزر گاہ بند کی جا رہی ہے۔
طالبان کے اس اعلان کے بعد جمعے سے اس اہم گزر گاہ کے ذریعے دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں اور پیدل آمد و رفت معطل ہو گئی ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی سرحدی گزر گاہ بند کرنے کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر طالبان کے حامی اکاؤنٹس سے طالبان کا مبینہ اعلامیہ بھی زیرِ گردش ہے۔
طالبان کے اس یک طرفہ اقدام پر اسلام آباد کا تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
اسٹریٹجک حوالے سے اہم اسپن بولدک کا علاقہ گزشتہ ماہ طالبان کے قبضے میں آیا تھا اس کے بعد سے اس سرحدی گزر گاہ پر افغانستان کی جانب طالبان تمام انتظامات دیکھ رہے ہیں۔
طالبان نے اسپن بولدک کی سرحدی گزر گاہ کی بندش کے بارے میں جاری بیان میں کہا ہے کہ جب تک رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پاکستان آنے اور واپس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی سرحدی گزر گاہ تجارت سمیت ہر قسم کی نقل و حرکت کے لیے بند رہے گی۔
اس بیان میں توقع کی گئی ہے کہ مسئلے کے حل تک افغان باشندے اور پاکستان کے شہری اس راستے سے سفر سے گریز کریں گے۔
چمن۔اسپن بولدک کی سرحدی گزر گاہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کا ایک اہم اور دوسرا مصروف ترین راستہ ہے۔ افغانستان کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس راستے سے یومیہ 900 ٹرکوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔
افغان امور کے ماہر طاہر خان نے وائس آف امریکہ کے نذر الاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کی دوسری جانب چونکہ اب طالبان کا کنٹرول ہے اس لیے پاکستان کو خدشہ ہو گا کہ عام شہریوں کی شکل میں شدت پسند عناصر بھی سرحد پار آ سکتے ہیں۔
طاہر خان نے کہا کہ لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد و رفت میں اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہے کہ مشتبہ افراد سرحد پار نہ آ سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چمن-اسپن بولدک پر افغان شہریوں کی آمد و رفت بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے، محض مہاجر کارڈ یا افغان شناختی کارڈ پر ہو رہی تھی۔ اب پاکستان طور خم کی سرحدی گزر گاہ کی طرح یہاں بھی ویزا اور پاسپورٹ لازمی کرنے جا رہا ہے۔
طالبان کے سرحد پر آمد و رفت بند کرنے پر انہوں نے کہا کہ حالیہ اقدام افغان شہریوں کی پاکستان آمد کو ویزے سے مشروط کرنے کی جانب پیش رفت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
طاہر خان کے مطابق طالبان کا پاکستان کے فیصلے کے خلاف ردِ عمل اسلام آباد کو پیغام دینا ہے کہ وہ کوئی بھی جوابی اقدام کر سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ طالبان کا فیصلہ افغان عوام میں اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی گزر گاہ بند کرنے سے عام لوگوں کی آمد و ورفت کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی نقصان ہوگا۔
بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان پر ان کا ماضی کی طرح اثر و رسوخ نہیں رہا البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے اس سرحدی گزرگاہ کو بند کرنے کا یک طرفہ اقدام کیا ہے جو کہ اسلام آباد پر دباؤ بڑھانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صحافی شہزادہ ذوالفقار نے پاکستان کی جانب سے ویزے اور پاسپورٹ کی پابندی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا ہے کہ کابل انتظامیہ یہ الزام لگاتی ہے کہ اسلام آباد نے طالبان کے لیے دروازے کھول رکھے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو سرحد کی دوسری طرف سے شدت پسند عناصر کے داخل ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ اگر سرحد کو ہر کسی کے لیے کھلا رکھنا ہے تو پھر پاکستان کو افغان بارڈر پر باڑ لگانے کی کیا ضرورت تھی۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ سرحدی گزر گاہ کی زیادہ عرصہ بندش سے سرحد کے دونوں جانب عوام کو مشکلات ہوں گی ۔ ان کے بقول پاکستان اور طالبان کو بات چیت سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے استعمال کرنے کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ موجود ہے۔
اسی معاہدے کے تحت افغانستان اپنا تجارتی سامان بھارت کو برآمد کر سکتا ہے جب کہ پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ممالک تک راہداری تجارت کی سہولت موجود ہے۔
افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر کابل میں قتل
افغانستان میں طالبان نے افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کابل کے دارالامان روڈ پر دوا خان مینہ پال کو نشانہ بنایا گیا۔
افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چند دن قبل دارالحکومت کابل میں افغان وزیرِ دفاع کے گھر کو بھی خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں متعدد افراد ہلاکت ہوئے تھے۔ حملے کے وقت افغان وزیرِ دفاع گھر پر موجود نہیں تھے۔
یاد رہے کہ طالبان نے خبردار کیا تھا کہ وہ فضائی حملوں کے جواب میں افغان حکومت کے اعلیٰ حکام کو نشانہ بنائیں گے۔
دوا خان مینہ پال اس سے قبل افغان صدر ڈاکٹر محمد اشرف غنی کے نائب ترجمان کے طور پر کئی برس تک خدمات انجام دیتے رہے تھے۔
دوا خان مینہ پال باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر افغان حکومت کی پالیسی اور حکمت عملی کو کے حوالے سے بیانات جاری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف ٹیلی وژن پروگراموں اور صحافیوں کو افغان حکومت کی کارروائیوں کے بارے میں بھی اطلاعات فراہم کرتے تھے۔
افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے طالبان کی جانب سے دوا خان مینہ پال کی ہلاکت کی شدید مذمت کی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر انھوں نے ایک پیغام میں کہا کہ قتل و غارت، تشدد اور خون ریزی کے ذریعے افغان بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان صوبہ قندھار، ہرات اور ہلمند کے دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔ ایسے میں افغان حکام کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
کابل میں مقیم تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان کے تمام علاقوں میں لڑائی جاری ہے اور جہاں لڑائی مستقل بنیادوں پر جاری نہیں ہے وہاں ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ایسے تمام افراد کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے جو کہ ذرائع ابلاغ سے جڑے ہوں اورحکومتی پیغام مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کر سکتے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دواخان مینہ پال سرکاری میڈیا مشینری کی قیادت کر رہے تھے۔ یہی ان کی ہلاکت کا سبب بھی ہے۔ ان کے بقول اس وقت لڑائی کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی جنگ بھی جاری ہے اور ہر فریق کی خواہش ہے کہ اس کے مؤقف کو موثر انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔