پاکستان نے افغانستان سے متصل اہم سرحدی گزرگاہ چمن- اسپن بولدک کے ذریعے دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں بحال کر دی ہیں۔ یہ تجارت افغانستان کی جانب سے اب طالبان کے زیرِ انتظام چلائی جا رہی ہے۔
تاجروں نے سرحدی تجارت کی بندش ختم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ چمن اسپن بولدک سے تجارت کی اجازت ملنے کے بعد سوموار کو درجنوں ٹرک پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر چمن کیپٹن (ریٹائرڈ) جمعہ داد خان نے بتایا ہے کہ چمن اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ روزانہ پانچ گھنٹے دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھلی رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مخصوص اوقات میں پیدل آمد و رفت بھی جاری رہے گی۔
اس سے قبل پاکستان کی جانب سے سرحد کو صرف عام آمد و رفت کے لیے کھولا گیا تھا۔ سرحدی گزرگاہ سے آمد و رفت کے لیے سفری دستاویزات اور کرونا وائرس ٹیسٹ کا سرٹیفکٹ لازمی ہے۔
واضح رہے کہ اسٹریٹجک حوالے سے افغانستان کے اہم ضلعے اسپن بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد سرحد کی بندش کے نتیجے میں ہزاروں افراد دونوں اطراف پھنس گئے تھے اور دوطرفہ تجارت معطل ہوکر رہ گئی تھی۔
طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی افواج کے انخلا کے دوران چمن- اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کر کے اہم ترین ہدف حاصل کیا ہے۔
چمن کے مقامی صحافی اختر گلفام نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستانی حکام کی گزشتہ ہفتے طالبان کے ساتھ ہونے والی فلیگ میٹنگ میں دوطرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی پر اتفاق ہوا تھا۔ سرحد پر موجود مال بردار ٹرکوں، کنٹینرز کی طویل قطاروں اور تاجروں کے نقصان کو دیکھتے ہوئے دونوں جانب سے تجارت کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام کے لیے یہ فیصلہ مشکل تھا کیوں کہ طالبان کے قبضے کے بعد کسٹم کا باقاعدہ نظام نہیں چل رہا اور سوموار کو تجارت کی بحالی پر ہاتھ سے لکھی گئی رسیدوں پر انحصار کرنا پڑا۔
اختر گلفام کے مطابق سرحدی گزرگاہ سے ہونے والی تجارت پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس طالبان حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانی تاجروں کو اس بات کی بھی تشویش ہے آیا ان کا سامان متعلقہ جگہ تک پہنچ رہا ہے جس کی تصدیق کا فوری نظام کسٹم ہاؤس بند ہونے کی وجہ سے موجود نہیں۔
یاد رہے کہ چمن۔ اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ افغان حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اس راستے سے یومیہ 900 ٹرکوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔
اس سرحدی گزرگاہ پر قبضے کے بعد طالبان نے افغان قومی پرچم اتار کر ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا پرچم لہرا دیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور انہوں نے حالیہ ہفتوں میں ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کیا ہے۔
طالبان کے مطابق وہ شورش زدہ وسطی ایشیائی ملک کے 85 فی صد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں تاہم کابل انتظامیہ جنگجوؤں کے ان دعووں کی تردید کرتی ہے۔
'سرحد بند رکھنے سے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے'
پاکستان کے سابق سفارت کار آصف درانی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے سرحدی گزرگاہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھولی گئی ہوگی کیوں کہ دونوں طرف ہزاروں افراد پھنسے ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر سرحد پر لوگوں کو زیادہ عرصے تک روکا جاتا تو یہ انسانی مسئلہ بن جاتا لہذا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا۔ پاکستان کے اس اقدام کو دنیا کیسے دیکھتی ہے اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ موجودہ وقت میں کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے۔
انہوں نے کہا کہ سمندر تک براہ راست رسائی نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کا انحصار ہمسایہ ملکوں پر ہے۔ اسی بنا پر دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی افغانستان کی سرحدی گزرگاہیں کھلی ہوئی ہیں جس میں تاجکستان کی شیر خان بندر کے زریعے آمد و رفت اور تجارت بھی جاری ہے۔
تجزیہ کار محسن رضا خان کہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں نرمی گرمی چلتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود سرحدوں کا کھلا رہنا انسانی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے زیادہ لوگوں کا دار و مدار افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر ہے اسی بنا پر پاکستان نے تجارت کو بحال کردیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سرحد کے اس طرف انتظام کابل حکومت کا ہے یا طالبان کا یہ وہاں کا اندرونی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی گزرگاہ کھولنے کے حوالے سے کابل انتظامیہ سے تاحال کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا ہے اور اگر ایسا کوئی اعتراض کیا جائے گا تو پاکستان یقینی طور پر اسے دیکھے گا۔
سرحد پر تجارت کے ذریعے طالبان کے آمدن کے حصول کے سوال پر محسن رضا خان نے کہا کہ ٹیکس کا حصول اور اس کی تقسیم افغانستان کا اندرونی معاملہ یہ پاکستان نے نہیں بلکہ انہیں خود طے کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی چمن بارڈر سے ہونے والی تجارت کا زیادہ پیسہ کابل حکومت کی بجائے جنگی سرداروں کے پاس جایا کرتا تھا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں ہے، اس لیے وہ سامان رسد حاصل کرنے کے لیے ہمسایہ ملکوں کے زمینی راستوں پر انحصار کرتا ہے۔
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر جلات خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دونوں طرف کے تاجر اس فیصلے کو سراہتے ہیں جو کہ سرحد پر حالات کے معمول پر آنے کے ساتھ ہی بحال کر دی گئی ہے۔
ان کے بقول سرحدی گزرگاہ بند ہونا دونوں ملکوں کے تاجروں کے لیے مشکل صورتِ حال کا سبب تھی کیوں کہ تازہ اشیا کی ترسیل کو ہفتوں تک روکنا ممکن نہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے استعمال کرنے کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ موجود ہے۔ اسی معاہدے کے تحت افغانستان اپنا تجارتی سامان بھارت کو برآمد کر سکتا ہے جب کہ پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ممالک تک راہداری تجارت کی سہولت موجود ہے۔