16 ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد طالبان بتد ریج افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور ان کی آزادی کے خلاف اپنے سخت گیرموقف پر واپس آ گئے ہیں۔ طالبان کا استدلال ہے کہ یہ قوانین، اسلام کی ان کی تشریح کے مطابق ہیں، جب کہ افغانستان دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جو لڑکیوں کےتعلیم حاصل کرنے سے انکار کرتا ہے۔
افغانستان پر اپنے 16 ماہ سے جاری قبضے کے دوران طالبان خواتین کے حقوق سلب کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات اور احکامات جاری کر چکے ہیں، آئیے ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ کابل پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائیں گے۔ لیکن خواتین اور کمزور طبقات مسلسل ان کی سخت گیر سوچ اور نظریات کا ہدف بن رہے ہیں۔
عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک افسوسناک ٹائم لائن:
اگست 2021: طالبان کی واپسی:
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان 15 اگست کو کابل میں امریکی زیر قیادت غیر ملکی فوجیوں کے افراتفری پر مبنی انخلاء کے دوران اقتدار میں واپس آئے، جس سے 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور صدر اشرف غنی کی مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اپنے انجام کو پہنچی۔سخت گیر اسلام پسند گروپ نے 1996 سے 2001 کے اپنے اقتدار میں اپنے پہلے دور کے مقابلے میں نرم ضوابط کے ساتھ حکمرانی کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین سمیت ، افغان عوام کےانسانی حقوق کی پاسداری کریں گے۔
ستمبر 2021: صنفی طور پر الگ الگ کلاس روم:
SEE ALSO: لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ: طالبان کا علماسے مشاورت کے لیے اجلاس بلانے کا فیصلہطالبان نے 12 ستمبر کو اعلان کیا کہ خواتین صنفی لحاظ سے الگ الگ داخلے اور کلاس رومز کے ساتھ یونیورسٹیوں میں جا سکتی ہیں، لیکن انہیں صرف خاتون یا معمر مردپروفیسرز ہی پڑھا سکتے ہیں۔ دیگر پابندیوں میں لازمی پر حجاب پہننا شامل ہے۔
مارچ 2022: لڑکیوں کےاسکول جانے پر پابندی
23 مارچ کوجب لڑکیوں کےسیکنڈری اسکول دوبارہ کھلنے والےتھے، طالبان نے اس ہدایت کو واپس لے لیا، اور لاکھوں نوعمرلڑکیوں کو اسکول آنے سے روک کرانہیں گھروں میں رہنے کا حکم دے دیا گیا۔
مئی 2022: محرم کے بغیر خواتین کے سفر پر پابندی
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے 7 مئی کو خواتین کو عوامی مقامات پر، اپنے چہروں سمیت خود کو مکمل طور پر ڈھانپنے اور عام طور پر گھر میں رہنے کا حکم دیا۔ خواتین سے یہ بھی کہا گیا وہ محرم مرد کے بغیر شہر کےباہر سفر نہ کریں۔
اگست 2022:تشدد کے ذریعہ احتجاج پر بندش
طالبان جنگجوؤں نے 13 اگست کو کابل میں وزارت تعلیم کے باہر ہونے والے مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے’’روٹی، کام اور آزادی‘‘ کے نعرے لگانے والی خواتین مظاہرین کو مارا پیٹا اور ہوا ئی فائر کیے۔ سخت گیر اسلام پسندوں نے احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی حراست میں لیا اور زد و کوب کیا۔
نومبر 2022: پارکوں سمیت تفریحی مقامات خواتین کیلئے ممنوع
خواتین کے پارکوں، تفریحی مقامات، میلوں اور عوامی حماموں میں جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
SEE ALSO: افغان طالبان کا ایک اور اقدام؛ خواتین کے پارک جانے اور میلوں میں شرکت پر پابندی عائددسمبر 2022: سر عام پھانسی اور کوڑوں کی سزائیں
طالبان نے اقتدار میں واپسی کے بعد اپنی پہلی سرعام موت کی سزا قتل کے ایک مجرم کو دی، جسے 7 دسمبر کو مقتول کے والد نے مغربی صوبہ فرح میں گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔
SEE ALSO: افغانستان: دو عورتوں سمیت 27 افراد کو سرعام کوڑے مارنے کی سزائیںاگلے دن،مرکزی صوبہ پروان کے چاریکار ضلع میں بدکاری اور جعل سازی جیسے مختلف جرائم میں خواتین سمیت 27 افغانوں کو ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے سامنے سرعام کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد سے دوسرے صوبوں میں باقاعدگی سے سرعام کوڑے مارے جا رہے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان: خواتین پر یونیورسٹیز کے دروازے بند کرنے پر طالبان کو تنقید کا سامنادسمبر 2022: خواتین کا یونیورسٹیوں میں داخلہ ممنوع
مسلح محافظوں نے 21 دسمبر کو سینکڑوں نوجوان خواتین کو یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہونے سےاس وقت روک دیا،جب وزیر تعلیم کی جانب سے ’’خواتین کی تعلیم کو اگلے نوٹس تک معطل کرنے‘‘کے حکم کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ایجنسی فرانس پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے۔