افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے سرکاری میڈیا کا کنٹرول بھی سنبھال کر خواتین اینکرز سمیت میڈیا ورکرز کو کام پر واپس آنے کی ہدایت کی ہے۔
سرکاری میڈیا کے علاوہ نجی چینلز پر بھی خواتین اینکرز اسکرین پر نمودار ہو رہی ہیں اور طالبان کے نمائندے تازہ ترین صورتِ حال پر خواتین اینکرز سے بھی گفتگو کر رہے ہیں جس کے بعد بعض ماہرین کے مطابق طالبان کو خواتین کے ٹیلی ویژن اسکرین پر آنے سے بظاہر اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
افغان نیوز چینل 'طلوع' نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں نیوز اینکر بہشتہ ارغند طالبان میڈیا ٹیم کے رکن مولوی عبدالحق حماد سے کابل شہر کی صورتِ حال پر ان کے تاثرات لے رہی ہیں۔
کابل کے مقامی صحافی بشیر نادم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اتوار کی نسبت صورتِ حال میں کچھ نرمی دیکھنے میں آئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول اگرچہ اب بھی تمام بڑے کاروباری مراکز بند ہیں تاہم کچھ چھوٹے کاروبار اپنی دکانیں کھول رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کابل کی پہچان ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے ہوتی تھی تاہم اب سڑکوں پر ٹریفک کم ہے اور زیادہ تر گاڑیوں میں طالبان ہی نظر آ رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دراصل کابل کے لوگ سکتے میں ہیں کہ کیسے اچانک ان کی دنیا بدل گئی اور وہ اپنے آنے والے دنوں کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
’طالبان نے دنیا کے تمام انٹیلی جنس اداروں کے دعوے غلط ثابت کیے‘
کابل سے تعلق رکھنے والے عرفان اللہ افغان کا کہنا ہے کہ وہ کابل شہر میں ایک چھوٹی سی کریانہ کی دکان چلاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں طالبان کے آنے کی فکر تھی لیکن شہر میں ایسی کوئی بھی نشانیاں نہیں تھی کہ اتنی جلدی ان کے شہر پر قبضہ ہو جائے گا۔
عرفان اللہ کے مطابق طالبان نے دنیا کے تمام انٹیلی جنس اداروں کے دعوے بھی غلط ثابت کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے عوام کے پاس اب کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ طالبان ماضی سے کچھ سبق حاصل کر چکے ہوں گے جس کا عملی مظاہرہ وہ کم ازکم موجودہ دنوں میں کر رہے ہیں۔
افغان صحافی بشیر نادم کے مطابق دارالحکومت میں سرکاری ادارے اور بینک بند ہیں جب کہ اے ٹی ایم مشینز خالی ہیں اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کب بینک کھلیں اور وہ اپنا سرمایہ نکال سکیں۔
’شہریوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں‘
دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ شہریوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
طالبان کی جانب سے جاری بیانات میں اپنے جنگجوؤں کو کہا گیا ہے کہ وہ گھروں میں زبردستی نہ گھسیں اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کا بھی خیال رکھیں۔
تاہم کابل کے علاوہ دیگر صوبوں میں صورتِ حال قدرے بہتر ہے۔
صوبہ ہلمند سے مقامی صحافی عزیز احمد شفیع کا کہنا ہے کہ لشکر گاہ میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد سرکاری افواج نے لشکر گاہ کا کنٹرول طالبان کے حوالے کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شروع کے دنوں میں خوف بہت زیادہ تھا۔ سرکاری افواج کے نکلنے کے بعد نہ صرف مقامی آبادی بلکہ طالبان کو بھی خوف تھا کہ کہیں رات کو پورے شہر پر بمباری نہ کر دی جائے کیوں کہ طالبان خود بھی مقامی افراد کے گھروں میں مورچہ زن تھے۔
عزیز احمد شفیع کا کہنا تھا کہ اب جب کہ طالبان کو لشکر گاہ کے کنٹرول کو کافی روز گزر گئے ہیں تو زندگی معمول کی جانب لوٹنا شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ بڑے کاروباری مراکز تاحال بند ہیں تاہم چھوٹے تاجروں نے اپنی دکانیں کھولنا شروع کر دی ہیں۔
SEE ALSO: طالبان کا افغانستان پر کنٹرول، سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے نیا چیلنجافغانستان کے شمال میں صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں بھی صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے۔
مزار شریف کے مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مقامی افراد خاص طور پر خواتین میں مستقبل کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
ان کے بقول طالبان کے قابض ہونے سے قبل یہاں بازار میں خواتین کا خاصا رش ہوا کرتا تھا تاہم اب خواتین بازاروں کا رُخ کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
افغانستان کی غیر یقینی صورتِ حال کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ دراصل افغانستان میں اس وقت باضابطہ طور پر کسی بھی حکومت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق افغانستان بغیر کسی حکمران کے ہے اور ایسے میں لوگوں کی تشویش مزید بڑھ گئی ہے اور انہیں اطمینان تب ہی حاصل ہو گا جب انہیں پتا چل چائے کہ کون ان کی قیادت کر رہا ہے جس کے بعد وہ یہ تعین کر سکیں گے کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آنے والی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اقتدار ملنے کی صورت میں وہ لڑکیوں کی تعلیم کے علاوہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ البتہ بعض افغان حلقے اور مغربی ممالک طالبان کے ان دعوؤں پو شکوک و شہبات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔