کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا شروع کر دیا ہے۔
بدھ کو لاہور کے قریب سادھوکی کے مقام سے مذہبی جماعت کے کارکنوں کے جی ٹی روڈ پر مارچ کے دوبارہ آغاز کرنے پر پولیس نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اس دوران پولیس اہل کاروں اور تحریکِ لبیک کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے سڑک پر کھڑے بعض ٹرکوں کو آگ لگانے کی کوشش کی، جب کہ اطراف میں املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ البتہ ٹی ایل پی کے بعض ذمہ داران کی جانب سے ان اطلاعات کو جھوٹ قرار دیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں اہل کاروں کے نشانہ بنانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
مرید کے اور شیخوپورہ کے اسپتالوں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق 50 کے لگ بھگ زخمی پولیس اہل کاروں کو اسپتالوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
پنجاب پولیس کے حکام کا الزام ہے کہ احتجاج میں موجود مظاہرین میں بعض افراد کے پاس اسلحہ بھی ہے جس سے اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان نے بھی پولیس کے تشدد سے کارکنوں کے نشانہ بننے کا دعویٰ کیا ہے۔
پنجاب میں میں دو ماہ کے لیے رینجرز طلب
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے آئندہ 60 روز کے لیے رینجرز بلانے کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے کہا کہ جھڑپوں میں تین پولیس اہل کار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 70 زخمی ہیں جن میں متعدد کی حالت تشویش ناک ہے۔
انہوں نے مظاہرین پر الزام عائد کیا کہ ان کی جانب سے کلاشنکوف سے براہِ راست پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب حکومت جہاں چاہے رینجرز کو استعمال کر سکتی ہے۔ امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کو طلب کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے احتجاج کرنے والی کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان پر الزام لگایا کہ ٹی ایل پی کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ ان کے مطابق ابھی بھی وہ واپس لاہور مسجد میں چلے جائیں۔
واضح رہے کہ لاہور میں واقع ایک مسجد ٹی ایل پی کا مرکز ہے جہاں سے لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں فرانس کا سفیر موجود نہیں ہے۔ ٹی ایل پی کو آگاہ کر چکے ہیں کہ فرانس کا سفارت خانہ بند نہیں کر سکتے۔
واضح رہے کہ احتجاج کرنے والے مظاہرین کے مطالبات میں فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنا بھی شامل ہے۔
تحریکِ لبیک کی ڈیڈ لائن
تحریک لبیک پاکستان کا احتجاجی مارچ مطالبات کی منظوری کے لیے جمعہ 22 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے آغاز پر مظاہرین نے سادھوکی کے مقام پر مارچ کو روک کر قیام کا اعلان کیا تھا۔
مذہبی جماعت کے قائدین نے حکومت کو منگل 26 اکتوبر کی رات تک مطالبات کی منظوری کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
تحریک لبیک پاکستان کے دو مطالبات ہیں کہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر فرانس کے سفیر کو ملک سے بے دخل کیا جائے اور ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے۔
تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مطالبات کے حوالے سے متعدد مذاکراتی دور ہوئے جو تاحال بے نتیجہ رہے ہیں۔
’ٹی ایل پی سے عسکریت پسند گروہ والا سلوک کیا جائے گا‘
دوسری جانب بدھ کو پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے معاملے پر بھی غور کیا گیا تھا۔
کابینہ کے اجلاس کے فوری بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بریفنگ میں بتایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ عسکریت پسند گروہ کے طور پر سلوک کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی مذہبی جماعت نہیں ہے۔ یہ تنظیم بہانے بہانے سے دھرنا دینے کی عادی بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ کسی کو طاقت کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ٹی ایل پی سے مذاکرات
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے منگل کو ٹی ایل پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا تھا کہ فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے معاملے کے علاوہ کالعدم تحریک لبیک کے باقی تمام معاملات پر بات کرنے اور حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر صدام بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے مارچ کو روکنے کے لیے راستے میں خندقیں کھود رکھی ہیں اور کنٹینرز لگا کر جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کارکنان نے اسلام آباد کی جانب مارچ کا آغاز کر دیا ہے جو گاڑیوں، بسوں اور پیدل افراد پر مشتمل ہے۔
ان کے مطابق راستے میں مختلف شہروں میں مارچ کے استقبال اور مزید افراد کے شامل ہونے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
رہنما لاپتا ہونے کا دعویٰ
صدام بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ان کے رہنماؤں کے ساتھ گزشتہ شب سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ وہ حکومت کی تحویل میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مارچ اب اپنی منزل اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کی شکل اختیار کرے گا اور دھرنے کے مقام سے متعلق شوریٰ اراکین وہاں پہنچ کر فیصلہ کریں گے۔
دوسری جانب منگل کی شام اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی و خارجی راستوں پر رکارٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔
اسلام آباد و راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد چوک کو چاروں جانب کنٹینرز لگا کر مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی کی اہم شاہراہ مری روڈ پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کے مطابق جڑواں شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ لانگ مارچ کے آغاز پر لاہور میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے باعث دو پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ جب کہ ٹی ایل پی نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ جھڑپوں میں اُن کے بھی متعدد کارکن نشانہ بنے ہیں۔