پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اعلیٰ حکام کے ایک وفد کے ہمراہ چینی ہم منصب وانگ یی کی دعوت پر جمعے کو دو روزہ دورے پر چین پہنچیں گے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق اس دورے کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری، دفاع اور سیکیورٹی میں تعاون، انسدادِ دہشت گردی اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال ہو گا۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین روانہ ہونے سے قبل ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اس دورے کے دوران پاکستان اور چین کے تعلقات کا ازسرِنو جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ اسٹرٹیجک ایجنڈے بھی زیرِ بحث آئیں گے۔
پاکستان کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ اس دورے کے دوران سی پیک کے منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بھی بات چیت متوقع ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب رواں ماہ داسو پن بجلی کے منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی کی ایک بس پر حملے ہوا جس میں نو چینی کارکنوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ابتدائی طور پر اس حملے کے بارے میں بیجنگ اور اسلام آباد کا تاثر ایک دوسرے سے مختلف تھا۔
پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ تیکنیکی خرابی سے دھماکے کے بعد بس گہری کھائی میں گرنے سے حادثہ ہوا۔ البتہ چین کے حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر پاکستان سے اس حملے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ داسو بس واقعے کے بعد اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات میں بظاہر ایک عارضی تناؤ پیدا ہوا ہے اور ابتدائی طور پر چین کی طرف سے اس واقعے کے بعد سخت بیانات سامنے آئے ہیں۔
چینی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد داسو پن بجلی گھر کے منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے پاکستانی کارکنوں کو منصوبے سے الگ کر دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے چینی حکام کو اس واقعے کی تحقیقات کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ سوچ اور فہم موجود ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات متاثر نہیں ہونے چاہیئں۔
ان کے بقول پاکستان ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
ہما بقائی یہ سمجھتی ہیں کہ اگرچہ بیجنگ کی طرف سے ابھی تک پاکستان اور چین کے تعلقات کے بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں کی گئی کیوں کہ چین خاموش سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن ان کے کہنا ہے کہ اگر صورت حال کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ بعض معاملات پر چین کے تحفظات ہو سکتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تحفظات صرف بس حملے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ہما بقائی کے بقول سی پیک کے منصوبوں کی لاگت اور پیش رفت کے بارے میں بھی دونوں طرف سنجیدہ تحفظات موجود ہیں۔ جیسا کہ یہ توقع تھی کہ پاکستان کے سرمایہ کار بھی سی پیک میں سرمایہ کاری کریں گے لیکن ابھی تک حکومت اپنے شہریوں کو اس بات پر قائل نہیں کر سکی ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا چین کا دورہ نہایت اہم ہے۔
SEE ALSO: کوہستان واقعے کے بعد چینی کمپنی نے داسو ڈیم کی تعمیر روک دیاس دورے کے دوران شاہ محمود قریشی پاکستان کے تحفظات کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ چین کے تحفظات کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ سی پیک سے متعلق بعض تحفظات کے باوجود اسلام آباد اور بیجنگ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت نہ چین چاہتا ہے کہ پاک چین تعلقات میں کوئی تعطل آئے اور نہ ہی پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دنیا کو دو طرفہ تعلقات کے بارے میں کوئی غلط اشارے ملیں۔ لیکن اگر داسو واقعے کی وجہ سے چین اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات پر کوئی منفی اثر پڑا ہے تو ایسے میں یہ وزیرِ خارجہ کا دورہ اہم ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ان کے چین کے دورے سے نہ صرف اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے بلکہ ساتویں دہائی میں داخل ہونے والی پاک چینی دوستی آنے والے وقت میں مزید گہری ہو گی۔