سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں اور اب چیئرمین تحریکِ انصاف کے وکلا اپنے دلائل دیں گے۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت کے جج ہمایوں دلاور توشہ خانہ کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ جمعے کو سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے توشہ خانہ سے 58 تحائف لیے جن میں گھڑیاں، انگوٹھی، کف لنکس، آئی فون اور دیگر تحائف شامل ہیں لیکن کسی تحفے کو ڈکلیئر نہیں کیا۔
وکیل نے کہا کہ توشہ خانہ کے تحائف سے نہ انکار کیا گیا نہ اقرار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور قومی خزانے میں جمع کروائے گئے چالان بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
وکیل نے کہا کہ تمام تر دستاویزات ملزم نے اپنے دستخط کے ساتھ جمع کروائیں اس لیے ان کے قابلِ قبول ہونے سے متعلق کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ملزم نے اپنے جواب میں تسلیم کیا ہے کہ کون کون سے تحائف لیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ سے قیمتی تحائف وصول کر کے ان کی فروخت سے حاصل رقم اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے الزام کا سامنا ہے اور اس مقدمے میں ان پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: توشہ خانہ کیس: عمران خان کی فوری امتناع کی استدعا سپریم کورٹ سے مستردعمران خان پر یہ الزام بھی ہے کہ اُنہوں نے توشہ خانہ کےتحائف کو سالانہ گوشواروں میں دو برس تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2021-2020 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بن چکا تھا۔
جمعے کو سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ استغاثہ نے کوئی شہادت پیش نہیں کی کہ تحائف کی مالیت 107 ملین تھی۔ لیکن استغاثہ نے تمام شواہد پیش کیے ہیں جب کہ ملزم نے تحائف کی فہرست کو تسلیم کیا ہے۔
وکیل کے مطابق یہ کہا گیا کہ جیولری کے تمام تحائف وزیرِ اعظم کی بیگم کو ملے لیکن فارم بی میں جیولری کے کالم میں کچھ نہیں لکھا گیا۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا "ان کا دعویٰ ہے کہ 19-2018 میں 107 ملین کے تحائف 58 ملین میں بیچے گئے لیکن عمران خان نے عدالت کے روبرو 342 کے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے ریکارڈ کو صحیح نہیں پڑھا۔"
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے ٹیکس ریٹرن پر انحصار نہیں کرتے۔ انہوں نے 29 اکتوبر 2019 کو چار ماہ بعد اس گھڑی کا ٹیکس ادا کیا جو انہیں 30 جون کی رات بارہ بجے تک ادا کرنا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ استغاثہ کا کیس یہ ہے کہ ملزم نے 58 ملین کی رقم اپنے اثاثوں اور واجبات میں کہیں ظاہر نہیں کی۔
فارم بی میں جیولری کا کالم موجود ہے لیکن چاروں برسوں میں جیولری کا ایک تولہ بھی ظاہر نہیں کیا گیا جب کہ قیمتی اشیاء کی کیٹیگری ان کی اپنی اختراع ہے فارم بی میں ایسا کوئی کالم موجود نہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ 21-2020 میں کیا کوئی جیولری لی گئی جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ رولکس گھڑی، رنگ، نیکلس، بریسلٹ،س ب وزیرِ اعظم کی بیگم کو گفٹ ہوئے، کیا یہ جیولری نہیں؟ چاروں بکریوں کو تو چاروں برسوں میں ظاہر کیا گیا، اگر ان کے پاس موجود جیولری کا عوام کو پتا چل جاتا تو کیا ہو جاتا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ جیولری کو فارم بی میں دکھانا ہی نہیں چاہتے اور توشہ خانہ کا لفظ فارم بی میں انہوں نے کہیں نہیں لکھا۔ تمام فارمز میں چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ جیولری کا ایک تولہ بھی نہیں رکھتے۔ عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ ماہر کو معلوم ہو گا کہ جیولری کو کس نام سے اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ہے۔
امجد پرویز کی جانب سے جیولری پر دلائل کے دوران جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ امجد صاحب آپ نے رولکس کی گھڑی کہاں سے خریدی۔ جس پر انہوں نے کہا "میں نے یہ گھڑی خریدی ضرور ہے مگر توشہ خانہ سے نہیں لی۔"
الیکشن کمیشن کے دلائل مکمل ہونے کے بعدعدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا ہے، جس کے بعد ہونے والی پیش رفت سے ہم آپ کو آگاہ کرتے رہیں گے۔