نور مقدم قتل کیس میں عدالت نے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مقرر کر دی ہے۔
نور مقدم کیس کی سماعت اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ہوئی جس میں تمام ملزمان بشمول تھیراپی ورکس ملازمین بھی موجود تھے۔
عدالت نے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی۔
دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر نے پہلی مرتبہ اپنے عمل پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ معافی مانگنا چاہتے ہیں اور روسٹرم پر آ کر عدالت سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
عدالت کے جج عطا ربانی نے کہا کہ ابھی ان کی ضرورت نہیں ہے۔ مقدمے کی باقاعدہ سماعت میں ان کو بھی سنا جائے گا۔
جج نے پولیس کو ہدایت کی کہ ملزمان کو واپس بخشی خانے لے جایا جائے۔
ایک روز قبل بھی سماعت پر ظاہر جعفر نے عدالت میں بات کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا کہ وہ تین ماہ سے حراست میں ہیں۔ عدالت کا آئندہ کیا منصوبہ ہے جس پر جج نے انہیں جواب دیا کہ عدالت کا منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ کارروائی ہوتی ہے۔
عدالت نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں۔
ملزم کا کہنا تھا کہ ان کو نہیں معلوم کہ ان کا وکیل کون ہے۔
جج عطا ربانی نے حیرت کا اظہار کیا کہ ان کی مختلف درخواستیں عدالت میں زیرِ التوا ہیں اور ان کو نہیں معلوم کہ ان کا وکیل کون ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
اس پر ملزم نے کہا کہ امریکہ کے سفارت خانے نے ان کے لیے وکلا کی فہرست ارسال کی ہے لیکن وہ ان کو نہیں دی جا رہی۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کی ڈیجیٹل ثبوت کی کاپی مہیا کرنے کی درخواست خارج کر دی۔
سماعت کے دوران ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ملزمان نے چالان اور دیگر ثبوتوں کے حوالے سے تین مختلف درخواستیں دائر کر دی ہیں جن میں کہا گیا کہ ملزمان کا شفاف ٹرائل نہیں ہو رہا اور انہیں مقدمے کے چالان سمیت دیگر دستاویزات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
درخواستوں میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک انہیں فارنزک رپورٹس فراہم نہیں کیں۔
ملزم کے وکلا کے مطابق تمام دستاویزات ملنے کے بعد تیاری کے لیے سات دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ عدالت نے فردجرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد پولیس نے نو ستمبر کو عبوری چالان پیش کیا تھا جس میں ملزم ظاہر جعفر کے خلاف تمام شواہد جمع کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں مقتولہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، ظاہر جعفر کے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور بیانات شامل تھے۔
پولیس کے مطابق شواہد ملزم کو سخت سزا دلانے کے لیے کافی ہیں۔ البتہ موبائل فون اور لیب ٹاپ کی فارنزک رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کرائی جا سکی ۔
ملزم کے والدین کی سپریم کورٹ میں درخواست
اس کیس میں اعانتِ جرم میں گرفتار ملزم کے والد اور والدہ نے سپریم کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کی طرف سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ اب تک اسے سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔
سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحب زادی نور مقدم کو 19 جولائی کی شام اسلام آباد کے پوش علاقے سیکٹر ایف-سیون میں قتل کیا گیا تھا ۔
نور مقدم کو مبینہ طور پر ظاہر جعفر نے جسمانی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد تیز دھار آلے سے قتل کیا اور سر جسم سے الگ کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔
نور مقدم کے قتل کے بعد سول سوسائٹی نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔