امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فردِ جرم عائد ہونے کو تاریخی موقع قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ پہلی بار ہے کہ کسی سابق صدر کو کسی کرمنل کورٹ میں کارروائی کا سامنا ہے۔ لیکن ٹرمپ امریکہ کی صدارتی تاریخ میں کوئی نیا باب رقم نہیں کر رہے۔
ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے پہلے صدر تھے جو حکومت چلانے یا کسی فوجی تجربے کے بغیر اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
ٹرمپ پہلے صدر تھے جن کا دو بار مواخذہ ہوا۔ ان سے پہلے کسی صدر نے اپنے بعد منتخب ہونے والے صدر کے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے اس طرح انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان نتائج کی توثیق کے معاملے میں ایسا کیا۔
ٹرمپ جب زور و شور سے آئندہ برس امریکہ کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہے تھے تو انہوں نے اپنی تاریخ بنانے کی یہ روایت برقرار رکھی ہے اور کرمنل کورٹ میں فردِ جرم کا سامنا کرنے والے پہلے سابق امریکی صدر بھی بن گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ ایسی بہت سی حدود کو عبور کیا ہے جسے امریکہ کے بانیوں نے اپنے منصب کے وقار کے لیے خود پر متعین کر رکھا تھا اور بہت سے ایسے کام کیے ہیں جو روایتی طور پر صدر کے شایانِ شان تصور نہیں ہوتے ہیں۔
اس لیے ٹرمپ اپنی بہت سی انفرادیتوں کے باوجود وہ پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جنہیں عہدے سے الگ ہونے کے بعد کسی قانونی چارہ جوئی یا کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نکسن اور کلنٹن
سن 1974 میں رچرڈ نکسن مشہور اسکینڈل واٹر گیٹ میں انصاف کا راستہ روکنے یا رشوت ستانی جیسے الزامات میں صرف اپنے جانشین صدر جیرالڈ فورڈ کی وجہ سے بچ گئے تھے۔
صدر نکسن نے یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور صدرجیرالڈ نے انہیں صدارتی معافی دے دی تھی۔
صدر بل کلنٹن کو اپنے دوسرے دورِ صدارت میں وائٹ ہاؤس کے عملے میں شامل انٹرن مونیکا لیونسکی کے ساتھ مراسم کے اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان پر الزام تھا انہوں نے حلفیہ بیان دیتے ہوئے مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔
اس معاملے میں استغاثہ کے ساتھ ان کا 2001 میں تصفیہ ہوگیا تھا تاہم اس الزام کی وجہ سے ان کی آبائی ریاست آرکنسا میں پانچ سال کے لیے ان کی وکالت کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا تھا۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1923 میں امریکہ کے صدر وارن ہارڈنگ اگر دورانِ صدارت ہی انتقال نہ کر گئے ہوتے تو انہیں اپنے کئی حکومتی ساتھیوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا۔
ٹرمپ کو اگرچہ 2016 کی انتخابی مہم میں ایک اسکینڈل سے بچنے کے لیے پورن اسٹار اسٹارمی ڈینیئلز کو خاموش رہنے کے لیے ادا کی گئی رقم چھپانے کی وجہ سے فردِ جرم کا سامنا ہے۔تاہم اس کے علاوہ بھی انہیں کئی دیگر معاملات میں بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔
سابق صدر کے خلاف 2020 کے انتخابات کے نتائج میں تبدیلی کی مبینہ کوشش اور چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اکسانے جیسے الزامات میں تحقیقات ہورہی ہیں۔
SEE ALSO: فرد جرم کے لیے سابق صدر ٹرمپ کوعدالت میں کیسے پیش کیا جائے گا?اپنے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمۂ انصاف کی رائے کو قانونی نکتہ نظر کے طور پر تسلیم کیا تھا کہ صدر کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں ہوسکتی۔ تاہم عہدے سے سبکدوش ہوتے ہی صدر کے حاصل یہ قانونی تحفظ ختم ہوجاتا ہے۔
امریکی تاریخ میں عام طور پر سابق صدور نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی ہنگامہ خیز زندگی نہیں گزاری۔ زیادہ تر سابق صدر فلاحی تنظیمیں بناتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں یا جمی کارٹر جیسے مثالیں بھی ہیں جنہوں نے صدارت ختم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر رفاہی کام کیے ہیں۔
واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے صدر نکسن کو عوامی سطح پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے عالمی امور پر اظہارِ خیال شروع کردیا تھا۔ وہ کئی کامیاب سیاست دانوں اور صدر بننے کے عزائم رکھنے والوں کو مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ ان سے مشاورت کرنے والوں میں ٹرمپ بھی شامل تھے۔
صدر نکسن کو واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ ایک بڑا سیاسی اسکینڈل تھا جس میں 1972 سے 1974 تک امریکی صدر رچرڈ نکسن کی انتظامیہ شامل تھی جس کی وجہ سے نکسن کو گھر جانا پڑا۔
یہ اسکینڈل نکسن انتظامیہ کی جانب سے 17 جون 1972 کو واشنگٹن ڈی سی، واٹر گیٹ آفس بلڈنگ میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ہیڈ کوارٹر کے توڑ پھوڑ میں اپنی شمولیت کو چھپانے کی مسلسل کوششوں سے شروع ہوا۔
سال 1974 تک واٹر گیٹ کا معاملہ ابتدائی جرم سے کہیں آگے بڑھ چکا تھا۔ اس دوران صدر نکسن حکومت کے کئی عہدے دار مستعفی ہوچکے تھے اور انہیں جیل جانا پڑا تھا۔
نکسن اس معاملے میں واٹر گیٹ کے اسپیشل کونسل کا اگلا ہدف تھے۔ لیکن نکسن کو ان کے جانشین جیرالڈ فورڈ نے صدارتی معافی دے دی تھی۔
SEE ALSO: نصف صدی کا قصّہ : واٹر گیٹ اور پھر پچاس سال بعد کیپٹل ہل پر حملہصدر نکسن پر کتاب کے مصنف جون اے فیرل کا کہنا ہے کہ نکسن کے خلاف فردِ جرم کرنے کے حق میں کانگریس میں مضبوط رائے پائی جاتی تھی یا کم از کم یہ ضرور سمجھا جارہا تھا کہ صدارتی معافی قبل از وقت تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ صدر فورڈ نے نکسن کے سبکدوش ہونے کے بعد اس قدر جلد معافی کا اعلان کیا کہ پراسیکیوٹر کو صدر نکسن کے خلاف عائد کردہ الزامات کی تفصیلات سامنے رکھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔
صدر فورڈ کی رائے بھی یہ تھی کہ فردِ جرم، ٹرائل، سزا اور کوئی بھی ممکنہ کارروائی فوری درپیش مسائل سے ملک کی توجہ منتشر کرنے کا باعث بن سکتے تھے۔صدر نکسن اور ہارڈنگ کا شمار ان صدور میں ہوتا ہے جنہیں اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے خلاف کارروائی کی نوبت نہیں آئی۔
20 ڈالر کا جرمانہ
یولیسس گرانٹ ان صدور میں شامل ہیں جن کی حکومت میں شامل کئی عہدے داروں پر مالی کرپشن کے الزامات تھے۔ لیکن خود انہوں نے انتہائی معمولی الزام پر قانونی کارروائی کا سامنا کیا تھا۔
امریکہ کی خانہ جنگی کے ہیرو سمجھے جانے والے یولیسس گرانٹ کو 1872 میں دو بار تیز بگھی چلانے پر روکا گیا جس پر انہیں 20 ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے کبھی کوئی رات جیل میں نہیں گزاری۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔