پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک اہم جنگجو کمانڈر مفتی خالد کو سرحد پار افغانستان میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مفتی خالد کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے جن کی لاش پاکستان کے قبائلی اضلاع باجوڑ اور مہمند سے ملحقہ افغان صوبے کنڑ سے ملی ہے۔
ٹی ٹی پی اور افغان حکومت کی طرف سے مفتی خالد کی ہلاکت کی نہ تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید سامنے آئی ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق مفتی خالد 2008 کی انتخابی مہم کے دروان ایک سیاسی جلسے پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے۔ اس حملے میں 36 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے ۔
اطلاعات کے مطابق مفتی خالد 20 دسمبر 2016 کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے میں بھی مبینہ طور پر ملوث تھے۔
باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے میں 19 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے۔
اسی طرح مفتی خالد پر پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کی ایک عمارت اور بس پر حملے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس فروری میں بھی ٹی ٹی پی کے سابق ڈپٹی کمانڈر مفتی خالد کی افغان سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ البتہ اس وقت ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مفتی خالد کو شیخ خالد بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تھا۔
گزشتہ چند برس سے افغانستان میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی اور اس سے منحرف ہو کر شدت پسند گروہ داعش میں شامل ہونے والے درجنوں سرکردہ جنگجو کمانڈر سرحد پار مارے جا چکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ملا فضل اللہ، منگل باغ آفریدی، شاہد اللہ شاہد، عبد اللہ اورکزئی اور دیگر نمایاں ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد پار افغانستان میں روپوش شدت پسند اب مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ کافی کمزور ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے منسلک جنگجو اب علاقائی بنیادوں پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ یعنی سوات، وزیرستان، مہمند، باجوڑ، کرم، خیبر، اورکزئی اور دیگر علاقوں کے جنگجوؤں نے اپنے گروہ قائم کر لیے ہیں۔
مشتاق یوسف زئی نے مزید کہا کہ جو پاکستانی طالبان تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، وہ محفوظ ہیں جب کہ باقی غیر محفوظ اور منقسم ہو چکے ہیں۔